زندگی کی مددگار
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قرآن میں جب یہ آیت اُتری کہ جو لوگ سونا او رچاندی جمع کرتے ہیں اُن کے لیے وعید ہے (9:34)تو بعض صحابہ نے کہا کہ اگر ہم یہ جانتے کہ کون سا مال بہتر ہے تو ہم اسی کو لیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سب سے افضل چیز خدا کو یاد کرنے والی زبان ہے۔ اور خدا کا شکر کرنے والا دل ہے۔ اور وہ مومنہ بیوی جو آدمی کے ایمان پر اُس کی مدد کرے:عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: لَمَّا أُنْزِلَتْ: الَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ، وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللهِ[التوبة:34] قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ. فَقَالَ: بَعْضُ أَصْحَابِهِ قَدْ نَزَلَ فِي الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ مَا نَزَلَ، فَلَوْ أَنَّا عَلِمْنَا أَيُّ الْمَالِ خَيْرٌ اتَّخَذْنَاهُ فَقَالَ: أَفْضَلُهُ لِسَانًا ذَاكِرًا، وَقَلْبًا شَاكِرًا، وَزَوْجَةً مُؤْمِنَةً تُعِينُهُ عَلَى إِيمَانِهِ ( مسند احمد، حدیث نمبر 22392)۔
مادی دولت صرف دنیا کی عارضی زندگی میں کچھ راحت دے سکتی ہے۔ مگر ذکر اور شکر اور ایمان کی دولت وہ دولت ہے جو آخرت کی ابدی زندگی میں زیادہ بڑی راحت کا ذریعہ بنے گی۔ ذکر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا کو یادکرے، اس کا ذہن خدا کی سوچ میں لگا رہے۔ شکر یہ ہے کہ آدمی کو خدا کی نعمتوں کا گہرا احساس ہوجائے۔ وہ دل کی گہرائیوں کے ساتھ خدا کے انعامات کا اعتراف کرنے لگے۔ ایمان سے مراد خدا کی معرفت ہے۔ خدا کی شعوری دریافت کے نتیجہ میں آدمی کے اندر جو عقیدہ بنتا ہے اُسی کا نام ایمان ہے۔
کسی مرد کے لیے عورت ان پہلوؤں سے سب سے بڑی مددگار ہے۔ مرد اور عورت اپنی روزانہ کی زندگی میں جب ایک دوسرے سے فکری تبادلہ (intellectual exchange) کرتے ہیں تو دونوں کو اس سے یہ فائدہ ملتا ہے کہ وہ خدا کی یاد کا گہرا روحانی تجربہ کرتے ہیں۔ وہ خدا کے عطیات کا تذکرہ کرکے ایک دوسرے کے اندر شکر کے جذبات کو بڑھاتے ہیں۔ وہ خدا کی ذ۱ت وصفات میں باہمی غور و فکر کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں دونوں کی معرفت (realization) میں اضافہ ہوتا ہے۔