اجتماعی صبر
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:
الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ (ابن ماجہ، حدیث نمبر 4032) ۔ یعنی وہ مومن جو لوگوں کے درمیان رہتا ہے، اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے، وہ زیادہ اجر پاتا ہے اس مومن سے جو لوگوں کے درمیان نہیں رہتا، اور لوگوں کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔
اس حدیث میں انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی کے فرق کو بتایا گیاہے۔ ایک مومن وہ ہے جو نماز و روزہ جیسے ذاتی اعمال کرتا ہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں جب تک وہ لوگوں کے ساتھ شامل نہ ہو تو اس کو ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے جو اجتماعی زندگی میں کسی کو پیش آتے ہیں۔ مثلاً اس کی انا(ego)پر ضرب لگنا۔ اس کو کسی سے ایسی بات سننے کا تجربہ ہونا، جو اس کو افنڈ (offend) کرنے والا ہو۔ اس کو کبھی ایسا سابقہ پیش نہیں آئے گا، جب اس کو یہ محسوس ہو کہ اس کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس کو لوگوں کی طرف سے کسی اذیت کا تجربہ پیش نہیں آئے گا۔ وہ ایک معتدل زندگی گزارے گا۔ اس کو کبھی کسی سے شکایت نہ ہوگی۔ مگر اس قسم کی زندگی کا درجہ اللہ کے یہاں کم ہے۔
اس کے برعکس معاملہ اس مومن کا ہے جو لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ اس کے ساتھ فطری طور پر ایسا ہوگا کہ کبھی اس کو محسوس ہوگا کہ مجھ کو نظر انداز کیا جارہا ہے، کبھی اس کو محسوس ہوگا کہ اس کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جارہا ہے، کبھی وہ کسی کی بات پر افنڈہوجائے گا، کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے گا جو اس کو اپنی عزت نفس کے اعتبار سے بظاہر ناقابل برداشت محسوس ہوگا، کبھی اس کو کسی سے انا کامسئلہ (ego clash) پیش آجائے گا، وغیرہ۔اس کے باوجود وہ اللہ کی خاطر اعلیٰ ایمانی روش پر قائم رہے گا۔ گویا کہ وہ اذیتوں کےباوجودایک بے شکایت (complaint-free) انسان بنارہے گا۔
ان دونوں قسم کے انسانوں میں سے دوسرے انسان کا درجہ اللہ کے یہاں بہت بڑا ہے۔ کیوںکہ وہ لوگوں کی طرف سے پیش آنے والی اذیت کے باوجود نارمل طریقے سے ایمان و اسلام پر قائم رہا۔دوسروں کی طرف سے اذیت پیش آنے کے باوجود اعتدال پر قائم رہنا، سادہ بات نہیں۔ ایسا انسان بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایمان و اسلام کے اعتبار سے ایک تیار ذہن (prepared mind) ہو۔ وہ شعوری طور اس حقیقت کو جانتا ہو کہ اجتماعی زندگی میں لازماً خلافِ مزاج باتیں پیش آتی ہیں۔ مگر اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی مکمل طور پر بے شکایت انسان بن جائے۔
یہ اعلیٰ انسان وہ ہے جو آرٹ آف مینجمنٹ (art of management) کو جانتا ہے۔ جو یہ جانتا ہے کہ کس طرح غیر معتدل واقعہ کو مینج کرکے معتدل واقعہ بنایا جائے۔ جو یہ جانتا ہے کہ کس طرح منفی تجربہ کو مثبت تجربہ میں کنورٹ (convert) کیا جائے۔ جو اس راز سے واقف ہے کہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف اس لیے ہوتی ہیں کہ ان کے پیش آنے پر آدمی فوراً ہی ان کو بھلا دے، وہ ان سے کوئی اثر قبول نہ کرے۔
ایسا انسان وہ ہے جو یہ جانے کہ ایمانی زندگی میں یہ کرنا پڑتا ہے کہ جب کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اس کو اپنے اوپر نہ لیا جائے، بلکہ اسی وقت اس کو اللہ کے خانے میں ڈال دیا جائے۔ خلاف مزاج تجربہ پیش آنے کی صورت میں وہ یہ کہہ سکے— یہ اللہ کا معاملہ ہے، یہ میرا معاملہ نہیں۔ جب آپ کے ساتھ کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اس کو منفی معنی (negative sense) میں نہ لیجیے، بلکہ اس کو ایک موقع (opportunity) کے طور پر دیکھیے۔ یہ موقع کہ فرشتوں (کراماً کاتبین) نے آپ کے ریکارڈ میں لکھا کہ یہ وہ انسان تھا جو اللہ کی خاطر ہر حال میں صبر و رضا کے اصول پر قائم رہا۔ ایسے انسان کو اللہ کے یہاں النفس المطمئنۃ (الفجر،89: 27) کا درجہ دیا جائے گا۔ یعنی عقد نفسی سے پاک انسان (complex-free soul) کا درجہ۔ یہی وہ انسان ہے کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے لیے جنت کے دروازے اپنے آپ کھلتے چلےجائیں گے،حتی کہ کوئی دروازہ اس کے لیے بند نہ رہے گا۔