منعم کا اعتراف نہیں
موجودہ زمانے کا یہ عام مزاج ہے— نعمتوں کا استعمال، لیکن مُنعم کا اعتراف نہیں۔ ویکلی اخبار تہلکہ(Tehelka) کے شمارہ 11 مارچ 2006ءمیں ایک مفصل رپورٹ بمبئی کے مدرسوں کے بارے میں تھی۔ رپورٹ کے مطابق، بمبئی میں ان مدرسوں کی تعداد80 ہے۔ دو صفحے کی اِس رپورٹ کا عنوان یہ تھا:
Please leave us to our devices, they work fine
اِس رپورٹ میں محمد علی روڈ پر واقع ایک مدرسے کی تصویر تھی۔ اِس میں تحفیظ القرآن کے ایک کلاس کا منظر دکھایا گیا تھا۔تقریباً 25 طلبا قرآن کے نسخے لے کر اس کو حفظ کررہے ہیں۔ درمیان میں ایک استاد مخصوص انداز سے گاؤ تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ منہ میں پان ہے اور سر پر اونچی ٹوپی۔ اتنے میں ان کے موبائل ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ وہ اپنے ہاتھ میں موبائل لے کر نہایت اطمینان کے ساتھ بات کرنے لگتے ہیں۔ تصویر کے نیچے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
Wait and watch: a phone call interrupts classes.
موجودہ زمانے میں خدا نے انسان کو نہایت قیمتی چیزیں عطا کیں۔ مگر میر ے تجربے کے مطابق، بیش تر لوگ ان کا صرف غلط استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً جدید کمیونی کیشن خدا کی ایک عظیم نعمت ہے مگر غالباً اس نعمت کا تقریباً 95 فیصد حصہ صرف بے فائدہ یا غلط مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ یہ زمانہ گویا موبائل انفجار (mobile explosion)کا زمانہ ہے۔ موبائل کا استعمال اتنا عام ہوگیا ہے کہ ہر مولوی اور غیر مولوی کے ہاتھ میں موبائل دکھائی دیتا ہے۔ موبائل بلا شبہ موجودہ زمانے کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اِس کے بے شمار فائدے ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ میں نے موبائل استعمال کرنے والوں میں سے کسی میں اس پر حقیقی شکر کا جذبہ نہیں پایا۔اور جہاں تک کہ اس نعمت پر شکر کا تعلق ہے وہ تو میں نے اپنے تجربے میں حقیقی طور پر کسی کے اندر پایا ہی نہیں، نہ مذہبی لوگوں میں نہ سیکولر لوگوں میں۔ اس معاملے میں دونوں کی حالت ایک ہے۔