حمد اور تضرع
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: عَرَضَ عَلَيَّ رَبِّي لِيَجْعَلَ لِي بَطْحَاءَ مَكَّةَ ذَهَبًا. فَقُلْتُ: لَا يَا رَبِّ وَلَكِنْ أَشْبَعُ يَوْمًا وَأَجُوعُ يَوْمًا، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، فَإِذَا جُعْتُ تَضَرَّعْتُ إِلَيْكَ وَذَكَرْتُكَ، وَإِذَا شَبِعْتُ حَمِدْتُكَ وَشَكَرْتُكَ (مسند احمد،حدیث نمبر22190؛ سنن الترمذی، حدیث نمبر2347)۔ یعنی، حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے رب نے میرے سامنے یہ پیش کش کی کہ مکہ کی وادی کو تمہارے لیے سونا بنا دیا جائے۔ میں نے کہا کہ اے میرے رب! نہیں، بلکہ مجھے یہ پسند ہے کہ میں ایک دن کھاؤں اور ایک دن بھوکا رہوں۔ پس جب مجھے بھوک لگے تو میں تیری طرف عاجزی کروں اور تجھ کو یاد کروں۔ اور جب مجھے سیری حاصل ہو تو میں تیری تعریف کروں اور تیرا شکر ادا کروں۔
اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے دو چیزیں مطلوب ہیں— ایک یہ کہ وہ اللہ کی قدرت کا اعتراف کر کے اس کے آگے اپنے عجز کا اظہار کریں۔ دوسرے یہ کہ وہ اللہ کی نعمتوں کو محسوس کر کے اس پر شکر کرنے والے بن جائیں۔ یہ دونوں باتیں نہایت وضاحت کے ساتھ قرآن وحدیث میں بتائی گئی ہیں۔ مگر اس کا سب سے بڑا عملی تجربہ وہ ہے جو بھوک اور سیری کی صورت میں انسان کے ساتھ پیش آتا ہے۔ جب آدمی کو بھوک لگتی ہے، جب اس کو پیاس ستاتی ہے، اس وقت اس کو آخری حد تک اس حقیقت کا احساس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر کمزور اور محتاج ہے۔ اسی طرح جب بھوک پیاس کی شدت میں مبتلا ہونے کے بعد اس کو کھانا اور پانی ملتا ہے تو اس وقت اس کو آخری طور پر محسوس ہوتا ہے کہ کھانا اور پانی کتنی زیادہ قیمتی چیزیں ہیں۔
اس دنیا میں آدمی کو بھوک کا تجربہ بھی ہونا چاہیے اور سیری کا بھی۔ اس پر یہ کیفیت بھی گزرنی چاہیے کہ اس کا حلق پیاس کی وجہ سے سوکھ گیا ہو، اور اسی کے ساتھ یہ کیفیت بھی کہ اس نے ٹھنڈا پانی پیا اور اس کے بعد اس کا وہ حال ہو گیا جس کو حدیث میں ان لفظوں میں بیان کیا گیا ہے:ذَهَبَالظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ(شعب الایمان للبیہقی،حدیث نمبر 3902)۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات کے بغیر کیفیات پیدا نہیں ہوتیں۔ روزہ اسی قسم کے حالات پیدا کرنے کی ایک سالانہ تدبیر ہے۔ روزہ کے ذریعہ آدمی کو بھوک اور سیری دونوں کا تجربہ کرایا جاتا ہے، تاکہ وہ خدا کے آگے عاجزی کرنے والا بھی بنے اور اسی کے ساتھ اس کا شکر کرنے والا بھی۔
قرآن میں روزہ کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے اگلوں پر فرض کیا گیا تھا ، تاکہ تم پرہیز گار بنو... رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا... پس تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے، وہ اس کے روزے رکھے... اور اللہ کی بڑائی کرو اس پر کہ اس نے تم کو راہ بتائی، اور تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو (2:183-185)۔
ان آیات میں روزہ کے دو خاص فائدے بتائے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ روزہ آدمی کے اندر تقویٰ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اس سے آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنے رب کا شکر کرنےوالا بنے۔
قرآن میں جس دینی کیفیت کے لیے تقویٰ اور شکر کا لفظ استعمال ہوا ہے، اسی کو حدیث میں تضرع اور شکر کہا گیا ہے۔ یہی دونوں کیفیتیں عبدیت کی اصل ہیں۔ اللہ کے مقابلہ میں اپنے عجز کا احساس آدمی کے اندر تضرع اور تقویٰ کے احساسات ابھارتا ہے۔ اور اللہ کے عطیات کا احساس اس کے اندر حمد اور شکر کے جذبات پیدا کرتا ہے۔
اگر آدمی کا شعور بیدار ہو تو یہ دونوں کیفیتیں ہرروز ہر تجربہ سے آدمی کے اندر پیدا ہوتی رہیں گی۔ وہ ہر واقعہ سے یہ دونوں ربانی غذائیں حاصل کرتا رہے گا۔ پھر انھیں دونوں کیفیات کو مزید شدت اور عمومیت کے ساتھ حاصل کرنے کے لیے رمضان کے مہینہ کا روزہ مقرر کیا گیا ہے۔ رمضان کا روزہ گویا عمومی تربیت کا خصوصی کورس ہے۔