مالداری، غریبی
الہدیٰ انٹرنیشنل کی دعوت پر امارات کا سفر ہوا۔ یہ سفر 5 مئی2004ء کو شروع ہوا اور 10 مئی 2004 کو ختم ہوا۔ اس سفر میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے ابھی دبئی کے امیر لوگوں کو دیکھا ہے۔یہاں غریب لوگ بھی ہیں۔ ان غریب لوگوں سے آپ کی ملاقات نہ ہوسکی۔ اگر آپ ان کو دیکھتے تو آپ جانتے کہ یہاں معاشی فراوانی کے ساتھ معاشی عدم مساوات بھی موجود ہے۔
میں نے کہا کہ میں دیکھے بغیر اس حقیقت کو جانتا ہوں۔ مجھ کو معلوم ہے کہ نہ صرف دبئی بلکہ ہر ملک میں، حتیٰ کی لندن اور نیویارک میں بھی ’’غریب‘‘ لوگ موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشی فرق فطرت کا ایک قانون ہے۔ وہ کسی سرمایہ دار یا کسی حکومت کا پیدا کردہ نہیں، بلکہ خود خالقِ فطرت کا پیدا کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس اور اس کے انقلابی ساتھی ہر قسم کی اکھیڑ پچھاڑ کے باوجود دنیا میں معاشی مساوات نہ لاسکے۔
قرآن سے ثابت ہے کہ خدانے تقسیمِ رزق میں ایک دوسرے کے درمیان فرق رکھا ہے (43:32)۔ اس فرق کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ اسی فرق سے انسانی سماج میں مسابقت اور چیلنج کا ماحول قائم رہتا ہے۔ اسی فرق کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ دنیا میںحالتِ امتحان قائم رہے اور لوگوں کی جانچ ہوتی رہے۔ اسی فرق کی بنا پر لوگوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ صبر اور شکر جیسی نیکیاں اپنے نامۂ اعمال میں درج کرواسکیں۔ اسی فرق کی بنا پر سماجی فلاح اور انسانی خدمت جیسی سرگرمیاں برابر جاری رہتی ہیں۔ اسی فرق کی بنا پر وہ تجربات پیش آتے ہیں جو لوگوں کو عمل کی زبان میں بتاتے ہیں کہ اس دنیا میں امیری اور غریبی دونوں وقتی بھی ہیں اور اسی کے ساتھ اضافی بھی۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیا میں معاشی فرق نہ رہے تو تمام سرگرمیاں ٹھپ ہوجائیں گی۔ اس کے بعد معاشی اور اقتصادی ترقی رُک جائے گی۔ روحانی اور فکری ارتقا کا عمل جاری نہ رہے گا۔ انسانی دنیا زندہ انسانوں کے بجائے مردہ مجسموں کی ایک دنیا بن کر رہ جائے گی۔ ایسی حالت میں لوگ عروج وزوال اور ترقی و تنزل کے واقعات کا مشاہدہ نہ کرسکیں گے، جب کہ اسی مشاہدہ سے انسان کو وہ عظیم چیز حاصل ہوتی ہے جس کو تاریخ کے اسباق کہا جاتا ہے۔