غیر فطری رد عمل
جب کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اُس کے مقابلہ میں آدمی کی روش کی دو مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک جذباتی رد عمل کا طریقہ، اور دوسرا غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ۔ جذباتی رد عمل عین وہی چیز ہے جس کو میڈیکل اصطلاح میں الرجی (allergy) کہا جاتا ہے۔ الرجی کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ الرجی نام ہے معتدل حالات میں غیر معتدل رد عمل کا۔
Abnormal reaction to normal things.
مثلاً اپنے خلاف تنقید کو سُن کر غصہ ہونا، اس قسم کی ایک الرجی ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کی کسی بات پر تنقید کرتا ہے تو اُس کا معتدل اور فطری رد عمل یہ ہے کہ آپ کھلے ذہن کے ساتھ اُس کو سنیں اور کھلے ذہن کے ساتھ اُس پر غور کریں۔ اگر تنقید غلط ہے تو آپ کوچاہیے کہ آپ دلیل کے ساتھ اُس کا جواب دیں اور اگر تنقید درست ہے تو سیدھی طرح اُس کو مان لیں۔ اس کے برعکس تنقید کو سُن کر بگڑ جانا ،تنقید کا غیر معتدل اور غیر فطری انداز میں جواب دینا ہے۔ پہلی صورت مریضانہ ذہنیت کا ثبوت ہے، اور دوسری صورت صحت مند ذہنیت کا ثبوت۔
اسی طرح مخالفانہ نعرہ کو سُن کر مشتعل ہو جانا، توہین کے کسی معاملہ پر بھڑک اُٹھنا، اپنے راستہ میں کوئی رکاوٹ دیکھ کر بگڑ جانا، اپنی سوچ کے خلاف سوچ کو برداشت نہ کرسکنا، یہ سب جذباتی ردِعمل کی صورتیں ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ دوسروں کے خلاف نفرت اور تشدد میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ زندگی کے مثبت اور تعمیری رخ کا تجربہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اس کے برعکس، دوسرا طریقہ غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ ہے۔ اسی کو قرآن میں ہجر جمیل کہا گیا ہے۔ یعنی جب اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات پیش آئے تو مشتعل نہ ہو کر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ اس پر غور کرنا، اور سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت معتدل انداز میں اس کا جواب دینا۔اس معتدل جواب کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ سادہ طورپر بس اُس کو نظر انداز کردیا جائے۔ یعنی وہی رویہ جس کو عام زبان میں اس طرح بیان کیا جاتا ہے— کتے بھونکتے رہتے ہیں اور ہاتھی چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح کبھی ہجر جمیل کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مخالف گروہ کی بدعملی کا جواب خوش عملی سے دیا جائے۔ اس کے پست اخلاق کے مقابلہ میں بر تر اخلاق کا طریقہ اختیار کرکے اس کو مغلوب کر لیا جائے۔ اسی طرح کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوسکتا ہے کہ دباؤ کی سیاست (pressure tactics) کا طریقہ اختیار کرکے اس کو خاموش ہونے پر مجبور کر دیا جائے۔
ہجر جمیل کی کوئی ایک لگی بندھی صورت نہیں۔ حالات کے اعتبار سے اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ تاہم جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ سوچے سمجھے منصوبہ کی بنیاد پر ہوگی ، نہ کہ بلا سوچے سمجھے رد عمل کی حیثیت سے۔ اس کا بنیادی مقصد اعراض کرنا ہوگا، نہ کہ اُلجھ جانا۔ وہ ہمیشہ امن کے اصول پر ہوگی، نہ کہ تشدد کے اصول پر۔ اس کے پیچھے کبھی بھی نفرت اور انتقام کا جذبہ نہیں ہوگا بلکہ صرف یہ جذبہ ہوگا کہ کسی نہ کسی طرح حسن تدبیر کے ذریعہ معاملہ کو ٹال دیا جائے تاکہ زندگی کی گاڑی معمول کے مطابق اپنے مطلوب رُخ پر چلنے لگے۔
ہجر جمیل کا نشانہ خارجی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ آدمی کی خود اپنی ذات ہوتی ہے۔ ہجر جمیل کا نشانہ یہ نہیں ہوتا کہ خود مسئلہ کا خاتمہ کردیا جائے۔ اُس کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ کو اپنے خلاف مسئلہ بننے سے روک دیاجائے۔