صبر کی طاقت

حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح کے درمیانی زمانہ میں بنی اسرائیل کے یہاں جنگ کا ایک واقعہ ہوا۔ اس وقت بنی اسرائیل کے جوانوں کی تعداد کم تھی اور دشمن کی فوج تعداد اور اسباب میں بہت زیادہ تھی۔ اس فرق کو دیکھ کر بنی اسرائیل کے لوگ ڈر گئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کو دشمن سے لڑنے کی طاقت نہیں(البقرہ،2:249)۔

 بائبل کے بیان کے مطابق،اس وقت بنی اسرائیل کے سردار(یونتن)نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آ،ہم اُدھر ان نامختونوں کی چوکی کو چلیں۔ ممکن ہے کہ خداوند ہمارا کام بنا دے۔ کیوں کہ خداوند کے لیے بہتوں یا تھوڑوں کے ذریعہ سے بچانے کی قید نہیں(1۔ سموئیل6:14)۔ یہی بات قرآن میں ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے :

قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (2:249)۔یعنی، جو لوگ یہ جانتے تھے کہ وہ اللہ سے ملنے والے ہیں، انھوں نے کہا کہ کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

 اس آیت میں قلیل اور کثیر کا لفظ صرف عددی معنوں میں اقلیت اور اکثریت کے لیے نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ وہ کمزور اور طاقت ور کے معنی میں بھی ہے۔ عربی زبان میں قلیل اور کثیر کا لفظ اس توسیعی مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جاہلی دور کے عرب شاعر کا یہ شعر اس کی ایک مثال ہے :

فان اك في شراركم قليل        فاني في خياركم كثير

قرآن کی اس آیت میں در اصل اس بات کا اعلان ہے کہ کسی گروہ کا قلیل التعداد یا کمزور ہونا اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ کثیر التعداد یا طاقت ور فریق کے مقابلہ میں ہمیشہ ناکام رہے ۔ اس دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ یہاں کمزور بھی طاقت ور پر غالب آسکتا ہے ۔ یہاں اقلیت بھی اکثریت کو مفتوح کر سکتی ہے۔

 اس فتح و کامرانی کا راز آیت میں صبر بتایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صبر کوئی انفعالی کیفیت یا بز دلی کی چیز نہیں۔ صبر ایک فعال صفت ہے ۔ وہ ایک بہادرانہ خصوصیت ہے۔ صبر اتنی عظیم چیز ہے کہ جو لوگ اس کا ثبوت دیں وہ خدا کی خصوصی نصرت کے مستحق بن جاتے ہیں۔حتیٰ کہ اس کا نتیجہ اس صورت میں نکلتا ہے کہ ایک بظاہر کمزور گروہ ایک بظا ہر طاقت ور گروہ کےاو پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔

 موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے ۔ یہاں ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان ہمیشہ مقابلہ جاری رہتا ہے۔ اس مقابلہ میں کبھی ایک گروہ غالب آجاتا ہے اور دوسرا گر وہ اس کے مقابلہ میں بظاہر مغلوب اور کمزور ہو کر رہ جاتا ہے۔

 جب کوئی گروہ دوسرے کے مقابلہ میں کمزور پڑ جائے اور اس کو نقصان اٹھانا پڑے تو اس کے بعد کمزور گروہ کے رد عمل کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک غیر صا برانہ ردعمل، دوسرا صابرانہ ردعمل۔غیر صابر انہ ردعمل یہ ہے کہ آدمی مایوسی اور احساس شکست کا شکار ہو کر رہ جائے ۔ وہ پست ہمت ہو کر بیٹھ جائے۔ وہ سمجھ لے کہ اب میرے لیے یہاں کچھ نہیں ہے۔ وہ دوسرے گروہ کو اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار ٹھہرا کر اس کے خلاف فریاد اور احتجاج کرنے لگے۔ یہ تباہی کی صورت ہے ۔ دوسروں نے اگر اس کو ابتدائی نقصان پہنچایا تھا تو اس کے بعد وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا کر اپنی تباہی کی تکمیل کر لیتا ہے۔

دوسرار د عمل صا برا نہ ردعمل ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو چوٹ لگنے کے بعد اپنے آپ کو سنبھالتا ہے ۔ اس کا ذہن شکایت کرنے کے بجائے تدبیر کے رخ پر چلنے لگتا ہے۔ وہ مایوسی میں پڑنے کے بجائے امید کے پہلوؤں پر غور کرتا ہے۔ وہ کھوئے ہوئے کا غم کرنے کے بجائے یہ چاہتا ہے کہ ملے ہوئے کو استعمال کرے۔

جو لوگ زک(نقصان)اٹھانے کے بعد اس طرح صبر کے طریقہ کو اختیار کریں وہ گویا اپنے آپ کو حالات سے اوپر اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اس حالت کی طرف لے جاتے ہیں، جہاں ان کے اندر چھپے ہوئے امکانات جا گیں۔ ان کی شخصیت مزید طاقت کے ساتھ ابھر آئے۔

 غیر صابر آدمی نقصان کو نقصان کے روپ میں دیکھتا ہے ۔ صابر آدمی نقصان کو اپنے لیے چیلنج سمجھتا ہے ۔ وہ حالات کا مقابلہ کر کے اپنے آپ کو آگے لے جانا چاہتا ہے ۔ اور جو لوگ نقصان کا اس  طرح استقبال کریں،وہ ہمیشہ آگے بڑھتے ہیں۔ وہ اپنی ناکامی کو دوبارہ عظیم تر کامیابی میں تبدیل کرلیتے ہیں۔

جب ایسا ہو کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے اوپر ظلم کرے، اور مظلوم گروہ کبھی اس کے جواب میں ظالمانہ کارروائی کرنے لگے تو دونوں گروہ اخلاقی اعتبار سے برابر ہو گئے۔ ایسے دونوں گروہوں کواللہ ان کی اپنی ذات کے حوالے کر دیتا ہے۔ ان میں سے کسی کو کبھی اللہ کی مدد حاصل نہیں ہوتی۔

 لیکن اگر ایسا ہو کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کو اپنے ظلم اور سرکشی کا نشانہ بنائے،مگرمظلوم گروہ جوابی کارروائی کرنے کے بجائے اس پر صبر کر لے، تو خد اصابر گروہ کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ وہ مظلوم گروہ کی مدد کر کے اس کو ظالم گروہ کے اوپر فاتح بنا دیتا ہے۔

مظلوم گروہ کو یہ فائدہ تمام تر صبر کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ صبر کوئی بے عملی کی حالت نہیں، صبر سب سے بڑا عمل ہے ۔ صبر یہ ہے کہ آدمی اپنے اندر اٹھتے ہوئے جذبات کو منفی رخ سے ہٹا کر مثبت رخ کی طرف پھیر دے۔

صبر کی صفت اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے ۔ جو شخص صبر کرے، وہ بے پناہ شخصیت کا مالک بن جاتا ہے۔ تمام قوانین فطرت اس کے حق میں متحرک ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد کے تحت وہ ایک ناقابل تسخیر ہستی بن جاتا ہے۔

صبر آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے اوپر اٹھائے ۔ وہ ظالم کی بدخواہی کے جواب میں اس کے ساتھ خیر خواہی کرنا سکھاتا ہے۔ وہ برے عمل کا جواب بھلے عمل سے دینے کا مزاج پیدا کرتا ہے ۔ صابر آدمی ظالم کے ظلم پر اس کے خلاف بددعا نہیں کرتا،بلکہ للہ تعالیٰ سے اس کی ہدایت کی دعا مانگتا ہے۔

 صبر آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ ایسا نہ کرے کہ وہ اشتعال انگیزی کے وقت مشتعل ہو جائے اور عاجلانہ کارروائی میں اپنی طاقت کو ضائع کرے۔ صبر آدمی کو بے پناہ حد تک طاقتور بنا دیتا ہے۔ وہ آدمی کی خفیہ صلاحیتوں کو جگاتا ہے۔ وہ آدمی کے چھپے ہوئے امکانات کو بیدار کرتا ہے۔ وہ آدمی کے اندار منصوبه بند کام کرنے کا مزاج پیدا کرتا ہے۔ صبر آدمی کو معمولی انسان کے درجہ سے اٹھا کر غیر معمولی انسان کے درجہ میں پہنچا دیتا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom