اشتعال نہیں
ایک صاحب ہیں۔ وہ بظاہر عام حلیہ میں رہتے ہیں، مگر مزاج کے اعتبار سے بہت دیندار ہیں۔ وہ ایک تعلیم یافتہ آدمی ہیں اور قرآن وحدیث کے موضوعات پر کئی کتا ہیں لکھی ہیں ۔
ایک روز نماز جمعہ کے بعد مسجد میں ان کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی ۔ موصوف کے ساتھی نے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ فلاں صاحب ہیں اور وہ قرآن و حدیث پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ بزرگ نے موصوف کی طرف دیکھا تو انھوں نے پایا کہ وہ قمیص پہنے ہوئے ہیں۔ سرپر گاندھی ٹوپی ہے۔ داڑھی بھی ایک مشت کے ناپ سے کم ہے ۔ بزرگ نے یہ دیکھ کر فرمایا :
صورت سے تو ایسا معلوم نہیں ہوتا
بزرگ کی زبان سے یہ توہین آمیز تبصرہ سن کر موصوف کو غصہ آگیا۔ تاہم انھوں نے برداشت کر لیا۔ وہ ایک لمحہ چپ رہے اور اس کے بعد بولے :
آپ کا ارشاد بجا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کبھی گنہ گاروں سے بھی اپنا کام لے لیتے ہیں۔
یہ ٹھنڈا جواب مذکورہ بزرگ کے لیے اتنا سخت ثابت ہوا کہ اس کے بعد وہ کچھ بول نہ سکے اور خاموشی کے ساتھ واپس چلے گئے۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اشتعال کے وقت آدمی کو کیسا جواب دینا چاہیے۔ جب بھی کوئی آدمی آپ پر تنقید کرتا ہے ، آپ کے خلاف کوئی سخت بات کہہ دیتا ہے تو آپ کے بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ آپ چاہنے لگتے ہیں کہ اس کو بھسم کر دیں، جس طرح اس نے آپ کو بھسم کیا ہے۔ مگر یہ طریقہ شیطانی طریقہ ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کڑواہٹ کو پی جائیں۔ جو جھٹکا آپ پر لگا ہے، اس کو دوسرے کے اوپر ڈالنے کے بجائے خود اپنے آپ پر سہہ لیں۔ جب آپ ایسا کریں گے تو آپ کو ایک نئی قوت حاصل ہوگی ۔ آپ اس حکمت کو جانیں گے کہ کڑوے الفاظ کا جواب میٹھے الفاظ سے دینا زیادہ سخت جواب ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اشتعال کے وقت جو شخص صبر کرے اور سوچ سمجھ کر بولے، وہ زیادہ طاقتور انداز میں اپنی بات کہنے کے لائق ہو جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ مشتعل الفاظ کا جواب ٹھنڈے الفاظ سے دے اور ٹھنڈک آگ کو زیادہ بجھانے والی ہے۔ وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ اپنے مخالف کو معاف کر دے اور معاف کر دینا یقیناً سب سے بڑا انتقام ہے۔