روزہ صبر کی تربیت
محدث بیہقی(وفات1066ء)نے’’شعب الایمان‘‘میں سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ کی ایک روایت رمضان سے متعلق نقل کی ہے۔ اس کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخر میں خطبہ دیا۔ اس میں آپ نے ماہ رمضان کا تذکرہ کیا اور فرمایا:وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر3608)۔ یعنی،وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبرکا بدلہ جنت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روزہ صبر کی تربیت ہے اور صبر تمام کامیابیوں کا ذریعہ ۔
دین میں سب سے پہلی چیز ایمان ہے ۔ ایمان کیا ہے۔ ایمان غیبی حقیقت کی دریافت ہے۔ آدمی اپنے آپ کو ظاہری فائدوں اور مادی رونقوں سے اوپر اٹھاتا ہے، تب اس کو باطنی گہرائیوں کا ادر اک ہوتا ہے۔ یہ ایک صابرانہ عمل ہے۔ اس صابرانہ عمل کے بغیر کسی کو ایمان کی اعلیٰ معرفت حاصل نہیں ہوتی۔ اس دنیا میں کوئی شخص ذہنی برداشت سے گزر کر ہی ذہنی یافت تک پہنچتا ہے۔
مومن سے یہ مطلوب ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان اسلامی اخلاق کے ساتھ رہے۔ یہاں دوبارہ صبر کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا ایسی دنیا ہے جہاں دوسروں کی طرف سے بار بار زیادتی کا تجربہ ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں لوگوں کے ساتھ اسلامی اخلاق کا معاملہ وہی شخص کر سکتا ہے جو لوگوں کی زیادتیوں کو برداشت کرے۔ اسلامی اخلاق یک طرفہ حسن سلوک کا نام ہے، اور صبر کے بغیر یک طرفہ حسن سلوک کا ثبوت دینا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
مومن ایک داعی انسان ہوتا ہے۔ مومن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے بندگانِ خدا تک خداکے دین کا پیغام پہنچائے۔ دعوت کا یہ کام صبر کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ دعوتی عمل کے لیے ضروری ہے کہ داعی اور مدعو کے درمیان معتدل فضا پائی جائے ۔ مدعو سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس قسم کی معتدل فضا پیدا کرے گا۔ اس لیے داعی کو یہ ذمہ داری لینی پڑتی ہے کہ وہ مدعو کی طرف سے پیش آنے والی تلخیوں کو نظر انداز کرے، تاکہ دعوت کا ماحول بگڑنے نہ پائے۔ اور تلخیوں کو نظر انداز کرنے کا یہ معاملہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی صبر کی سطح پر جینے کے لیے تیار ہو۔
روزہ کا مہینہ اسی صبر کی تربیت کا مہینہ ہے۔ اور صبر وہ اعلیٰ انسانی صفت ہے جس میں دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیوں کا راز چھپا ہوا ہے۔
روزہ قربانی کا عمل ہے اور قربانی کا عمل سب سے زیادہ اعلیٰ عمل ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں روزہ کی اس امتیازی خصوصیت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ، الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ، قَالَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ:إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ:فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ(صحیح مسلم، حدیث نمبر1151) ۔ یعنی، حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابن آدم کا ہر نیک عمل دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ بندہ اپنی شہوت کو اور اپنے کھانے کو میرے لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشی ہے۔ ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری خوشی اس وقت جب وہ اپنے رب سے ملے گا۔
روزہ عام عبادات سے الگ ایک عبادت ہے۔ روزہ میں آدمی اپنی جائز خواہش کو اور اپنے جائز کھانے کو اللہ کی خاطر چھوڑ دیتا ہے۔ گویا روزہ دار روزہ رکھ کر اپنے اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ کی خاطر اگر اس کو انتہائی ضروری اور جائز چیزوں سے جدائی اختیار کرنا پڑے تو اس سے بھی وہ دریغ نہیں کرے گا۔ روزہ کی یہی وہ امتیازی خصوصیت ہے جس کی بنا پر اس کا امتیازی ثواب رکھا گیا ہے۔
موجودہ دنیا میں حق پرست بننے کے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ آدمی غلط اور صحیح کے درمیان تمیز کرتا ہو۔ مختلف حالات کے اعتبار سے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ممنوعات کی فہرست مزید وسیع ہو جاتی ہے۔ کبھی ضروری ہو جاتا ہے کہ آدمی کھانا پینا بھول کر اپنی ڈیوٹی انجام دے۔ وہ عمل کے بجائے اعراض کا طریقہ اختیار کرے ۔ وہ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوئے بھی نہ کرے۔ الفاظ رکھتے ہوئے وہ نہ بولے اور پاؤں رکھتے ہوئے وہ نہ چلے۔ ایک کام کو بظاہر صحیح سمجھتے ہوئے بھی اس کی طرف اقدام کرنے سے باز رہے ۔
روزہ اسی قربانی کا سبق ہے۔ اس دنیا میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک جائز چیز بھی آدمی کے لیے ناجائز بن جاتی ہے۔ اور ایک مطلوب چیز بھی نا مطلوب کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ یہ ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے۔ جو لوگ اس اعلیٰ ایمانی درجہ پر پورے اتریں، ان کے لیے اللہ کے یہاں اتنا بڑا اجر ہے جس کا نہ کوئی شمار ہے اور نہ کوئی حساب ۔