نفس کے خلاف جہاد
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس ہو کر مدینہ پہنچے تو آپ نے فرمایا: قَدِمْتُمْ مِنَ الْجِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الأَكْبَرِقَالُوا: وَمَا الْجِهَادُ الأَكْبَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: مُجَاهَدَةُ الْعَبْدِ هَوَاهُ (تاریخ بغداد للخطیب بغدادی، حدیث نمبر 7297)۔ یعنی، تم لوگ چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہو۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول، جہاد اکبر کیا ہے؟ آپ نے کہا کہ بندہ کا اپنے نفس سے جہاد کرنا۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ ہم وقتی جہاد سے مستقل جہادکی طرف واپس آئے ہیں:
We have come back from temporary jihad to permanent jihad.
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وقتی جہاد سے مراد دفاعی جہاد (defensive jihad) ہےجو کبھی کبھی پیش آتا ہے، اور مستقل جہاد سے مراد اسپریچول جہاد(spiritual jihad) ہے جو ہر آدمی کی زندگی میں مستقل طورپر جاری رہتا ہے۔اِس بات کو مالک بن دینار تابعی (وفات130ھ )کے حوالے سے اِس طرح بیان کیا گیا ہے: جَاهِدُوا أَهْوَاءَكُمْ كَمَا تُجَاهِدُونَ أَعْدَاءَكُمْ(الكامل في اللغة والأدب للمبرد، جلد2، صفحہ128) ۔ یعنی،اپنی خواہشات سے جہاد کرو، جس طرح تم اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو۔
دشمن کے خلاف جہاد انتہائی وقتی چیز ہے، جو اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ کسی نے باقاعدہ طورپر ریاست کے اوپر حملہ کردیا ہو۔ یہ دفاعی جہاد ہے، اور اِس میں صرف کچھ تربیت یافتہ افراد حصہ لیتے ہیں، نہ کہ ساری مسلم کمیونٹی۔ اِس کے برعکس، اپنے نفس کے خلاف جہاد ایک انفرادی نوعیت کی چیز ہے اور وہ ہر مومن کی زندگی میں جاری رہتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ اِس لیے اس دنیا میں ہر عمل کو کرنے کے لیے اپنے نفس کے ساتھ مقابلہ پیش آتا ہے۔ اپنے نفس سے کامیاب مقابلے کے بغیر کوئی آدمی جہادِ نفس کے کام کو انجام نہیں دے سکتا۔ مثال کے طور پر یہ ایک ثواب کا کام ہے کہ آپ جب کسی شخص سے ملیں تو کہیں’السلام علیکم‘ (تمھارے اوپر سلامتی ہو) ۔ یہ کلمہ اتنا بڑاعمل ہے کہ اِس کے کہنے پر حدیث میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں جب آدمی لوگوں کے ساتھ رہتا ہے تو بار بار اُس کو دوسروں کی طرف سے تلخ تجربات پیش آتے ہیں۔ اِس بنا پر ہر آدمی کے دل میں دوسروں کے خلاف شکایت کے جذبات موجود رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں حقیقی معنوں میں ’السلام علیکم‘ صرف وہ شخص کہہ سکتا ہے جو اس سے پہلے اپنے دل کو ہر قسم کے منفی جذبات سے پاک کرے اور اس کے بجائے اپنے دل کو لوگوں کے لیے خیر خواہی کے جذبات سے بھردے۔غور کیجیے تو یہ کام اتنا مشکل ہے کہ اِس کے لیے وہی زبردست کوشش کرنی پڑے گی جس کو جہاد کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اِسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ:الْحَمد للهتملأ الْمِيزَان(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14657)۔ یعنی،الحمد للہ کا کلمہ میزان کو بھر دیتا ہے۔ غور کیجیے تو یہ بھی کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سچا الحمد للہ کہنے کے لیے بہت بڑا ذہنی عمل درکار ہے۔ الحمد للہ کہنا، خدا کی نعمتوں پر شکر کا اظہار کرنا ہے۔ خدا کی یہ نعمتیں آدمی کو مسلسل طورپر لاتعداد صورتوں میں ملتی رہتی ہیں۔ یہ نعمتیں ہر آدمی کو اپنے آپ ملتی ہیں۔ چنانچہ آدمی ان کا عادی ہو جاتا ہے اور عادی ہونے کی بنا پر شعوری طورپر ان کو بطور نعمت محسوس نہیں کرتا۔ایسی حالت میں الحمد للہ کہنے کے لیے ایک فکری جہاد کرنا پڑتا ہے۔ اُس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی تفکیری قوتوں کو عمل میں لاکر غیر شعور کو اپنے شعور میں لائے، اپنے جذبات کی نئی رُخ بندی کرے، وہ اپنی فکری قوتوں کو بیدار کرنے کے لیے مجاہدبن جائے۔ اِس کے بعد ہی اس کی زبان سے وہ کلمۂ حمد نکلتا ہے جو میزان کو بھر دینے والا کلمہ ہے۔
آدمی کے اندر طرح طرح کی خواہشیں ہیں— حرص، علو پسندی، دوسرے کو حقیر سمجھنا، بے صبری، غصہ اور انتقام، وغیرہ۔ آدمی ہر وقت اِن منفی جذبات کے تابع رہتا ہے۔ اِسی کے ساتھ وہ کچھ چیزوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ مثلاً دولت، شہرت اور اولاد، وغیرہ۔ آدمی کی یہ بے پناہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ تمام چیزیں اس کو بھر پور طور پر حاصل ہوجائیں۔
نفرت اور محبت کے یہ مختلف جذبات، آدمی کے اوپر ہر وقت چھائے رہتے ہیں، وہ جو کچھ سوچتا ہے، اِنھیں جذبات سے مغلوب ہوکر سوچتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر انھیں جذبات کے تحت اپنی زندگی کا نقشہ بناتا ہے۔ ایسی حالت میں یہ بلا شبہ ایک جہادی عمل ہے کہ آدمی خدا کو مسلسل طورپر اپنا مرکزِ توجہ بنائے، وہ صراطِ مستقیم سے اپنے آپ کو ہٹنے نہ دے— یہی وہ پُر مشقت عمل ہے جس کو حدیث میں جہادِ نفس کہاگیا ہے۔