شکایت کو نفرت تک پہنچانا

ایک روایت حدیث کی کتابوں صحیح مسلم، ابوداؤد، الترمذی، ابن ماجہ، اورمسند احمد میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ، يَلْتَقِيَانِ: فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلاَمِ  (صحیح البخاری، حدیث نمبر6077)۔ یعنی، ابوایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑ ے رہے۔ دونوں ملیں اور پھر وہ ایک دوسرے سے منہ پھیر لیں۔ دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔

انسانی تعلقات میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے ناخوش گوار تجربہ پیش آتا ہے۔ دونوں کے درمیان ناگواری بڑھتی ہے، یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے ترکِ تعلق کرلیتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے ملنا اور سلام کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔

یہ طریقہ اسلامی شریعت میں جائز نہیں۔ ایسا کرنے والے لوگ سخت گنہ گار ہیں، وہ خدا کے یہاں اِس کے لیے پکڑے جائیں گے۔

اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر دونوں کے درمیان تلخی کا سبب غلط فہمی ہے تو غلط فہمی کو دور کرکے تعلق کو درست کرلیا جائے۔ اور اگر ایک آدمی دوسرے کے بارے میں یہ سمجھے کہ وہ بددیانت ہے تو ایسی حالت میں اُس کے لیے صرف یہ جائز ہے کہ وہ اُس سے مزید کوئی عملی معاملہ نہ کرے۔ لیکن جہاں تک ظاہری تعلق یا سلام وکلام کی بات ہے، وہ بدستور جاری رہنا چاہیے۔

اِس طرح کے معاملات میںآدمی کو چاہیے کہ وہ سماجی تعلق کو بدستور برقرار رکھے۔ اِس کے آگے کا جو معاملہ ہے، وہ اُس کو خدا کے حوالے کردے۔ اِس طرح کے معاملے میں کسی سے سلام وکلام بند کرنا شکایت کو نفرت تک پہنچانا ہے، اور شکایت کو نفرت تک پہنچانا کسی کے لیے جائز نہیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom