شکر ایک اعلیٰ عبادت
شکر کیا ہے۔ شکر اُس داخلی کیفیت کا نام ہے جو کسی نعمت کے گہرے احساس سے آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ انگریزی میں اس کو گریٹ فُل نیس (gratefulness) کہاجاتا ہے۔ عربی زبان کی مشہور ڈکشنری لسان العرب (جلد4، صفحہ 423)کے مطابق ، احسان کی معرفت اور اس کے تذکرے کا نام شکرہے (الشُّكْرُ:عِرْفانُ الإِحسان ونَشْرُه)۔ راغب الاصفہانی کی کتاب المفردات فی غریب القرآن (صفحہ 265) میں بتایا گیا ہے کہ شکر کا مطلب ہے— نعمت کے بارے میں سوچنا اور اس کا اظہار کرنا (الشُّكْرُ:تصوّر النّعمة وإظهارها)۔ مفسر القرطبی نے لکھا ہے:وَالشُّكْرُ مَعْرِفَةُ الْإِحْسَانِ وَالتَّحَدُّثُ بِهِ (تفسیر القرطبی، جلد2، صفحہ172)۔شکر نام ہےاحسان شناسي اور اس کے اعتراف کا ۔
نعمت کا اعتراف(acknowledgement)ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ یہ اعتراف جب خدا کی نسبت سے ہو تو اِسی کا نام شکر ہے۔ انسان کے اوپر خدا کی نعمتیں سب سے زیادہ ہیں، اِس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ خداوند ِ ذوالجلال کا شکر ادا کرے۔ حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ نے اپنی ایک دعا میں فرمایا:رَبِّ اجْعَلْنِي لَك شَكَّارًا (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3831؛ سنن الترمذی،حدیث نمبر3551 ؛ مسند احمد،حدیث نمبر1997) ۔یعنی اے میرے رب! تو مجھ کو اپنا بہت زیادہ شکر کرنے والا بنا۔
قرآن میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ اے لوگو! خدا کے شکر گزار بندے بنو۔ مثلاً میٹھے پانی کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ(56:70)۔ یعنی، تم شکر کیوں نہیں کرتے۔ انسان سے جو چیز سب سے زیادہ مطلوب ہے، وہ یہی شکر ہے۔ شیطان کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو شکر کے راستے سے ہٹا دے۔قرآن کے مطابق، آغازِ حیات میں اُس نے خدا کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں انسانوں کو بہکاؤں گا، یہاں تک کہ تو اُن میں سے اکثر لوگوں کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا— وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ:
And you will not find most of them grateful (7:17)
قرآن میں مختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ خدا کے بندوں میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو شکر کرنے والے ہیں: وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ(34:13)۔ شکر کا مطلب اگر یہ ہو کہ آدمی زبان سے شکر کے الفاظ بولتا رہے، تو ایسے لوگ ہمیشہ بہت زیادہ رہے ہیں اور آج بھی وہ بہت زیادہ ہیں۔ ایسے لوگ بے شمار ہیں جو اپنی گفتگو کے دوران بار بار الحمد للہ، اللہ کا شکر ہے اور اللہ کا فضل ہے، جیسے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں دنیا بظاہر شکر کرنے والوں سے بھری ہوئی ہے، پھر مذکورہ قرآنی بیان کا کیا مطلب ہے کہ لوگوں میں بہت کم ہیں جو شکر کرنے والے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ شکر کی دو قسمیں ہیں— لسانی شکر، اور قلبی شکر۔ لسانی شکر کو نارمل شکر، اور قلبی شکر کو تھِرلنگ (thrilling) شکر کہہ سکتے ہیں۔ خدا کی خدائی شان کے مطابق، شکر صرف وہ ہے جو تھرلنگ شکر ہو۔ نارمل شکر صرف ایک لِپ سروس (lip-service) ہے۔ اِس قسم کا شکر خدا کو مطلوب نہیں۔ اِسی کے ساتھ ضروری ہے کہ خدا کے لیے انسان کا شکر ایک اضافہ پذیر شکر ہو۔ جو شکر ایک حالت پر قائم ہوجائے، وہ ایک جامد شکر ہے۔ اور جامد شکر وہ شکر نہیں جو خدا کے نزدیک مطلوب شکر کی حیثیت رکھتا ہے۔
تھرلنگ شکر صرف اُس شخص کو ملتا ہے جو خدا کے احسانات (blessings)پر مسلسل غور کرتا رہے۔ انسان کے اوپر خدا کے احسانات لامحدود ہیں۔ اِس لیے جوآدمی اِس پہلو سے غور وفکر کرتا رہے، وہ ہر وقت ایک نئے خدائی احسان کو دریافت کرے گا، وہ ہر وقت ایک نئے سبب ِ شکر کا تجربہ کرے گا۔ اس کے یہ تجربات کبھی ختم نہ ہوں گے۔ اِس لیے اس کے اندر شکرِ خداوندی کا احساس بھی مسلسل طورپر زندہ رہے گا۔
میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے سوچا کہ انسان کی قوتِ سماعت بھی کیسی عجیب ہے کہ اس کے کان میں بے شمار قسم کی آوازیں آتی ہیں۔ وہ ہر آواز کو ممیّز (differentiate) کرکے اس کو الگ سے پہچان لیتا ہے۔ اس کے بعد میں نے اپنے ایک ہاتھ کو حرکت دی اور بات کرنے کے لیے ریسیور کو اٹھایا۔ دوبارہ میں نے سوچا کہ میرے جسم میں بہت سے اعضا ہیں، لیکن میرے دماغ نے صرف ایک عضو (ہاتھ) کو متحرک کیا کہ وہ ریسیور کو اٹھائے۔ اِس عمل میں آنکھ کا بھی ایک حصہ تھا، کیوں کہ اگر آنکھ اپنا عمل نہ کرتی تو مجھے یہ معلوم ہی نہ ہوتا کہ ریسیور کہاں ہے۔
جب میں نے ٹیلی فون پر بات کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ٹیلی فون کے دوسری طرف جو آدمی ہے، وہ انگریزی زبان میں بول رہا ہے۔ میں اس کی بات کو پوری طرح سمجھ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ میری مادری زبان اردوہے، اور دوسرے شخص کی زبان انگریزی۔ میںکسی بات کو صرف اُس وقت سمجھ پاتا ہوں، جب کہ میںاس کو اردو الفاظ میں ڈھال لوں۔ میں نے سوچا کہ دماغ کیسی عجیب نعمت ہے۔ جو اپنے اندر یہ انوکھی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ انگریزی الفاظ کو فی الفور(instantly) اردو میں ڈھال دے۔ اور اِس طرح متکلم کی بات کو بلاتاخیر میرے لیے قابلِ فہم بنادے۔
اِس طرح کی بہت سی باتیں اُس وقت میرے ذہن میں آتی رہیں۔ میں ایک طرف دور کے ایک شخص سے ٹیلی فون پر بات کررہا تھا اور دوسری طرف، عین اُسی وقت میں خدا کے بارے میں تھرلنگ شکر کا تجربہ کررہا تھا۔ یہ تجربہ اتنا زیادہ شدید تھا، جیسے کہ شکر کا ایک دریا میرے سینے میں جاری ہوگیا ہو۔اِسی طرح ہر لمحہ انسان کو ایسے تجربات پیش آتے ہیں جن کے اندر شکر کا سمندر چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اِس اعلیٰ شکر تک آپ کی رسائی صرف غور وفکر کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچ ہی اعلیٰ شکر کا دروازہ ہے۔ جس آدمی کے اندر سوچ نہ ہو، اس کے اندر شکر بھی نہ ہوگا۔ ایسا آدمی ہر چیز کو فارگرانٹیڈ (for granted) لیتا رہے گا۔
جو انسان چیزوں کو فار گرانٹیڈلے گا، وہ خدا کی نعمتوں کی کوئی قدر نہیں کرے گا، وہ شکر کے سمندر کے درمیان رہتے ہوئے بھی تھرلنگ شکر کا تجربہ نہیں کرے گا۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن میں آیا ہے :
لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ(7:179)۔ یعنی، ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے، بلکہ ان سے بھی زیادہ بےراہ۔ یہی لوگ ہیں غافل۔
اصل یہ ہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک، اس کا ابتدائی اور ظاہری پہلو۔ اور دوسرا، اس کا زیادہ گہرا پہلو۔ چیزوں کا ظاہری پہلو ہر آدمی کو کسی کوشش کے بغیر اپنے آپ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس کا جو گہرا پہلو ہے، وہ صرف سوچنے کے بعد کسی کو سمجھ میںآتا ہے۔ اعلیٰ شکر کا تجربہ کرنے کے لیے آدمی کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ چیزوں کے گہرے پہلو پر غور کرے، تاکہ وہ ایک معمولی چیز کو غیر معمولی روپ میں دیکھ سکے:
It is the result of taking an ordinary thing as extraordinary.
ایک دن مجھے پیاس لگی۔ میرے سامنے میز پر شیشے کا ایک گلاس پانی سے بھرا ہوا رکھا تھا۔ میں نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیا تو اس کو دیکھ کر میرے دماغ میں ایک فکری طوفان برپا ہوگیا۔ اچانک ایک پوری تاریخ میرے ذہن میں آگئی۔ میری زبان سے نکلا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تونے پانی جیسی نعمت انسان کو عطا کی۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں تھی۔ یہ ایک سپر(super) شکر تھا، جس نے میری پوری شخصیت میں طوفان برپا کردیا تھا۔میں نے سوچا کہ کئی بلین سال پہلے ایسا ہوا کہ دو گیسوں، آکسیجن اور ہائڈروجن، کے ملنے سے پانی جیسی سیّال چیز بنی۔ یہ پانی گہرے سمندروں میں ذخیرہ ہوگیا۔ اِس کے بعد خدا نے تحفّظاتی مادّہ (preservative) کے طورپر اِس میں دس فی صد نمک ملا دیا۔ یہ پانی براہِ راست طورپر انسان کے لیے ناقابلِ استعمال تھا۔ اِس کے بعد خدا نے ایک عالمی نظام کے تحت، پانی کو نمک سے الگ کرنے کے لیے، اِزالۂ نمک (desalination)کا ایک آفاقی عمل جاری کیا۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ سمندروں کا کھاری پانی، میٹھا پانی بن کر بارش کی صورت میں ہم کو حاصل ہوگیا۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ تھرلنگ شکر کی توفیق کسی آدمی کو کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ اِس کا واحد ذریعہ سوچ ہے۔ یہ دراصل سوچ ہے جو آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ سپر شکر کا ہدیہ اپنے رب کے حضور پیش کرے۔ سوچ کے سوا کوئی بھی دوسری چیز نہیں ہے جو آدمی کو اُس اعلیٰ شکر کا تجربہ کرائے جو کہ خدا کو انسان سے مطلوب ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: ربّ اجْعَلنِی لَک شکّاراً۔ کوئی انسان، شَکَّار یا بہت زیادہ شکر کرنے والا کیسے بنتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ آدمی شکر کے کلمہ کو ہزاروں بار دہرائے، یا اور کوئی وظیفہ پڑھے۔ اِس کوحاصل کرنے کا واحد ذریعہ غوروفکر ہے۔ مذکورہ دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدایا، تو مجھ کو ربّانی غور وفکر کی توفیق دے، تاکہ میرے اندر اعلیٰ شکر کی کیفیات پیدا ہوں، جو کہ حقیقی معنوں میں کسی انسان کو خدا کا شکر گزار بندہ بناتی ہیں۔آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ پائیں گے کہ قرآن میں شکر کو صبر کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ مثلاً قرآن میں دنیا کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (31:31)۔ یعنی، اِس میں نشانیاں ہیں ہر اُس انسان کے لیے جو بہت زیادہ صبر کرنے والا اور بہت زیادہ شکر کرنے والا ہو۔اِس قسم کی آیات پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قانونِ الٰہی کے مطابق، اعلیٰ شکر کی توفیق صرف اُن لوگوں کو ملتی ہے جو بہت زیادہ صبر کرتے ہوئے اِس دنیا میں زندگی گزاریں۔
ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ اِس بنا پر یہاں مختلف قسم کی برائیاں (evils)پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ صورتِ حال خدا کے قانون کی بنا پر ہے، انسان اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔ اِس معاملے میں انسان کو ایک ہی اختیار (option) حاصل ہے، وہ یہ کہ وہ صبر وبرداشت سے کام لے، تاکہ وہ دنیا میں نارمل طریقے سے رہ سکے۔
شکر ایک ایسا جذبہ ہے جو صرف ایک ایسے مائنڈ میں پیدا ہوتاہے جو کامل طور پر مثبت (positive) ہو، کسی بھی قسم کا منفی فکر(negative thought) اس کے ذہن میں موجود نہ ہو۔ مثبت ذہن کا آدمی ہی خدا کی توفیق سے اعلیٰ شکر ادا کرنے کے قابل ہوتاہے۔ صبر دراصل شکر کی قیمت ہے۔ جو آدمی یہ قیمت ادا نہ کرے، وہ شکر جیسی اعلیٰ عبادت بھی انجام نہیں دے سکتا۔