سوال و جواب
سوال
آپ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہم کو امتحان کے لیے رکھا ہے، تا کہ وہ دیکھے کہ کون صبر و استقامت کے اِس امتحان میں کامیاب ہوتا ہے۔ آخرت کی جنت اسی کامیاب ہونے والے انسان کے لیے ہے۔ سوال یہ ہے کہ — خدا نے آخرت کی کامیابی کے لیے امتحان کا یہ طریقہ کیوں رکھا؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔ (مکرم حسین، نئی دہلی)
جواب
یہ بات درست ہے کہ موجودہ دنیا میں ہمارے لیے ایک ہی آپشن (option)ہے اور وہ ہے— صبر و استقامت اور یک طرفہ ایڈجسٹ مینٹ کا آپشن۔ یہی آپشن ، اللہ کے تخلیقی نقشہ کے مطابق ہے۔ اِس دنیا میں کامیاب زندگی کی تعمیر کے لیے اِس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ سرے سے ممکن ہی نہیں۔ دوسرا طریقہ خود کشی کا طریقہ ہے، نہ کہ کامیابی کا طریقہ۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے خالق نے ہمارے لیے یہ طریقہ کیوں مقرر کیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اِسی طریقے کے ذریعے آدمی کے اندر ذہنی ارتقا ہوتا ہے۔ خالق نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ، مگر یہ صلاحیتیں بالقوہ(potential) کے روپ میں ہیں، یعنی امکان کے روپ میں ، نہ کہ واقعہ کے روپ میں۔
اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق ، انسان کی شخصیت کے اندر چھپی ہوئی فطری صلاحیتوں کو واقعہ بنانے کا طریقہ صرف ایک ہے اور وہ ہے چیلنج(challenge ) ۔چیلنج آدمی کے سوئے ہوئے ذہن کو جگاتا ہے۔چیلنج آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچ سکے۔ چیلنج اس بات کا ذریعہ ہے کہ آدمی منفی تجربات میں مثبت آئٹم کو دریافت کرے۔ آدمی ابتدائی طور پر ایک نا پختہ (immature) مخلوق ہے۔ یہ صرف چیلنج ہے جو آدمی کو پختہ( mature ) بناتا ہے۔ چیلنج آدمی کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو انفولڈ (unfold) کرے۔
عام طور پر عورتوں اور مردوں کا حال یہ ہے کہ چیلنج پیش آنے کی صورت میں وہ منفی رد ِعمل (negative reaction)کا طریقہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اِس طرح کے مواقع پر منفی رد عمل ، ڈی ریلمینٹ(derailment) کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں کسی عورت یا مرد کی زندگی غلط رخ پر چل پڑتی ہے۔دھیرے دھیرے وہ اِسی میں کنڈیشنڈ (conditioned)ہو جاتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اِسی منفی مزاج میں جیتے ہیں اور اِسی منفی مزاج میں مر جاتے ہیں۔یہ کسی عورت یا مرد کی بد ترین ناکامی ہے۔ اِس دنیا میں ہر شخص سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے اندر ایک مثبت شخصیت (positive personality) کی تشکیل کرے۔ مگر انسان اللہ کے تخلیقی منصوبے کو نہ سمجھنے کی بنا پر یہ کرتا ہے کہ وہ چیلنج کو ایک برائی (evil ) سمجھ لیتا ہے۔ وہ دنیا سے اُس چیز کو حاصل کیے بغیر چلا جاتا ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے خالق نے اُس کو اِس دنیا میں بھیجا تھا۔
سوال
حال ہی میں ہوئے بہار شریف میں فرقہ وارانہ ہندو مسلم فسادات کی خاص وجہ یہ تھی کہ ہندو ’’درگا ‘‘ کی مورتی لے کر مسلم محلہ میں آگئے اور اشتعال انگیز نعرہ لگانے لگے کہ مسلمان ہندوستان کے غدار ہیں ۔ مسلمان پاکستانی ایجنٹ ہیں ، ان کو ہندستان سے مار بھگاؤ۔ ایسے موقع پر مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے تھا ؟ (شاہ فیصل ، ویاؤ، نالندہ)
جواب
اس سوال کا جواب پیشگی طور پر خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق نے دے دیا ہے ۔ وہ اُنھیں کےالفاظ میں یہ ہے: اَمِیتُو البَاطِل بِا لصَمتِ عَنہُ (دیکھیے: حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ55)۔ یعنی، باطل کو ہلاک کر و اس سے چپ رہ کر۔
مذکورہ قسم کے مسائل کا بہترین حل یہ ہے کہ اُن کے بارے میں خاموشی اور اعراض کا طریقہ اختیار کیا جائے ۔ اعراض سے یہ مسئلہ صرف دو منٹ کے نعرہ پر ختم ہو جاتا ہے اور جب مسلمان اس طرح کے مواقع پر خاموشی کے بجائے جوابی اقدام کا طریقہ اختیار کریں تو غیر ضروری طور پر وہ برا انجام سامنے آجاتا ہے جو بہار شریف اور بھاگل پور جیسے مقامات پر پیش آیا ۔
سوال
قرآن میں آیا ہے کہ تم صبر کرو جس طرح اولوالعزم انبیاء نے صبر کیا اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کرو (46:35)۔اس کا مطلب کیا ہے ؟اس کی تفصیل فرمائیں (اسجدنواز صابری ، ململ، بہار)۔
جواب
عزم کا مطلب پختہ ارادہ(determination) ہے۔ یعنی، اپنے مقصد پر پوری طرح جمے رہنا ، کسی بھی چیز کا اثر لے کر اپنے مقصد سے منحرف نہ ہونا ۔ اِس آیت میں داعی کا کردار بتایا گیا ہے ۔ داعی سے جو کردار مطلوب ہے وہ یہ ہےکہ مدعو کی طرف سے خواہ کتنا ہی زیادہ منفی ردّعمل کا اظہار ہو مگر داعی اپنے مثبت رویہ پر قائم رہے۔ مدعو اگر اشتعال دلائے تب بھی داعی مشتعل نہ ہو۔ مدعو اگر قابل نفرت سلوک کرے تب بھی داعی اُس کا خیر خواہ بنا رہے ۔ مدعو اگر نزاع چھیڑ ے تب بھی داعی اُس سے اعراض کرتے ہوئے لڑائی کی نوبت نہ آنے دے ۔ یہی عزیمت ہے اور دعوت کاکام اِس عزیمت کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔
سوال
الرسالہ میں اکثریہ کہا جاتا ہے کہ ظلم وزیادتی کے خلاف مسلمانوں کو صبر کی روش اختیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ظلم وزیادتی پر صبر کرنا تو ظلم وزیادتی کو بڑھا وا دینا ہے۔ اس شبہ کا کیا جواب ہے؟(ندیم احمد سنا بلی ، دہلی)
جواب
اس سلسلہ میں پہلی بات یہ کہ قرآن میں پیغمبروں کی زبان سے ارشاد ہوا ہے کہ : وَلَنَصْبِرَنَّ عَلٰي مَآ اٰذَيْتُمُوْنَا (14:12)۔ یعنی، تمہاری ایذاؤں پر ہم صبر ہی کریں گے۔
اگر ظلم وزیادتی پر صبر کرنااس کو بڑھاوادینے کے ہم معنیٰ ہوتا تو پیغمبروں کو کبھی اللہ کی طرف سے یہ تعلیم نہ دی جاتی جو مذکورہ آیت کے مطابق انہیں دی گئی ۔اصل یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو لوگ عام طور پر اس کے خلاف جوابی کارروائی کو تدبیر سمجھتے ہیں مگر یہ صرف ایک جذباتی ردّعمل ہے ۔ جس کا نتیجہ ہمیشہ الٹا نکلتا ہے ۔
ایسے مواقع پر جوابی کارروائی صرف مسئلہ کو بڑھاتی ہے ۔وہ فریق ثانی کے اندر ضد اور انتقام کی آگ بھڑکاکر مسئلہ کو شدید تر بنادیتی ہے ۔ وہ کسی حال میں مسئلہ کا حل نہیں ۔
صبر کا مطلب عدم عمل نہیں ، صبر کا مطلب زیادہ مؤ ثر عمل ہے۔ صبر اور بے صبری میں یہ فرق ہے کہ بے صبرآدمی پیش آمدہ مسئلہ کو جذباتی تدبیر کے ذریعہ حل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں صبر والا آدمی حکیمانہ تدبیر کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کرتا ہے، بے صبری کا طریقہ ہمیشہ ناکام ہوتا ہے اور صبر کا طریقہ ہمیشہ کا میاب ۔
اس معاملہ کی ایک معلوم اور معروف مثال یہ ہے کہ ہر سال ہندو لوگوں کی طرف سے گن پتی کا جلوس نکلتا ہے ۔ ابتداً مسلمان یہ کرتے تھے کہ گن پتی کا جلوس جب ان کی مسجد کے سامنے سے گذرتا تو وہ روک ٹوک کرتے ۔ وہ جلوس کی روٹ بدلنے کی مانگ کرتے۔ اس کے نتیجہ میں دونوں فرقوں کے درمیان ٹکراؤ ہوتا اور خونی فساد کی نوبت آجاتی۔
اب اللہ کا فضل ہے کہ الرسالہ کی تعمیر ی مہم کے نتیجہ میں اس معاملہ میں مسلمان صبرو اعراض کی حکمت کو سمجھ گئے ہیں۔ چنا نچہ اب بھی ہر سال پہلے کی طرح گن پتی کا جلوس نکلتا ہے ۔ جلوس والے اب بھی وہی کرتے ہیں جو وہ پہلے کرتے تھے ۔ مگر اب کئی سالوں سے گن پتی کے جلوس کے موقع پر فرقہ وارانہ فساد کا ہونا تقریباً بند ہوگیا ہے ۔
اس کا سبب صرف یہ ہے کہ اب مسلمان گن پتی کے جلوس کے موقع پر صبر واعراض کا فارمولہ اختیار کرتے ہیں ، جب کہ اس سے پہلے وہ بے صبری اور جذباتیت کا طریقہ اختیار کیے ہوئے تھے۔
سوال
قرآن کریم کو آپ نے کتاب الصبر فرمایا ہے۔ یہ قول ان کے مقابلے میں نہایت وزنی ہے جو اس کو کتاب الجہاد سمجھتےہیں اور اسی انداز میں اس کو متعارف کراتے ہیں ۔
جہاں تک حقیقتِ واقعہ کا تعلق ہے تو میرے نزدیک کتاب الجہاد کہنا اگر افراط ہے تو کتاب الصبر قرار دینا تفریط۔ قرآن کے لیے اگر ہمیں اس طرح کی کسی وضاحت کی واقعی ضرورت ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اسے کتاب الاعتدال کہنا چاہیے اور اس کے نتیجہ میں جو مذہب وجود میں آتا ہے اسے مذہبِ اعتدال سے متعارف کرایا جاسکتا ہے۔ (محمد عمران مظاہری ، مدرسہ حسینیہ ، اغوان پور ، میرٹھ)
جواب
آپ نے صبر کو بہت محدود معنیٰ میں لیا ہے اس لیے آپ نے ایسا فرمایا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاد خود صبر ہے ۔ موجودہ امتحان کی دنیا میں اہل ایمان کو سو میں ننانوے بار صبر کرنا پڑتا ہے اس کے بعد جہاد کا موقع آتا ہے ۔
موجودہ امتحان کی دنیا میں ایمان کے تقاضوں پر زندگی گذارنے کے لیے صبر لازمی شرط ہے ۔ مثلاً اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے بھی صبر درکار ہے ۔ کیوں کہ اگر آپ کھوئے ہوئے پر صبر نہ کریں تو ملے ہوئے پر حقیقی جذبۂ شکر کا اظہار آپ کی زبان سے نہیں ہوسکتا ۔ دعوت کے لیے صبر لازمی شرط ہے ۔ کیوں کہ مدعو کی زیادتیوں پر یک طرفہ صبر کیے بغیر آپ سچے داعی نہیں بن سکتے ۔
نماز بھی آپ خشوع کے ساتھ صرف اُس وقت پڑھ سکتے ہیں جب کہ آپ دنیوی تقاضوں پر صبر کر کے اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے ہوں ۔ انفاق بھی آپ اسی وقت کرسکتے ہیں جب کہ آپ مال کی محبت کے جذبات پر صبر کرنے کے لیے تیار ہوں ۔
اسی طرح حج مبرور بھی اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب کہ سفر حج کے دوران پیش آنے والے مکارہ پر صبرکیا جائے ۔ اسی طرح اسلامی اخلاق کے اصولوں پر عمل اسی وقت ممکن ہے جب کہ لوگوں کی طرف سے پیش آنے والی شکایتوں پر صبر کیا جائے۔
یہی معاملہ خود جہاد کا ہے ۔ جہاد کا آغاز دوسروں کے خلاف قتال سے نہیں ہوتا بلکہ خود اپنے نفس پر کنٹرول کرنے سے ہوتا ہے۔ مومن دوسروں کی قابل شکایت باتوں پر صبر کرتےہوئے اس کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرتا ہے ۔ مومن دوسروں کی زیادتیوں پر صبر کرتے ہوئے اس کو دعوت کا مخاطب بناتا ہے ۔
مومن دوسروں کے جارحانہ عزائم کو یک طرفہ اعراض کے ذریعے بے اثر بناتا رہتا ہے اور اگر بالفرض جنگ کی نوبت آجائے تب بھی مومن یہ کرتا ہے کہ وہ صرف حملہ آور پر ہاتھ اٹھاتا ہے ۔ بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کو پھر بھی مومن اپنی زد سے محفوظ رکھتا ہے ۔
مومن اپنے منفی جذبات کو یک طر فہ طور پر دبا کر غیر حملہ آوروں کو نقصان پہنچانے سے بچتا ہے ۔ صبر کی ان تمام کارروائیوں کے باوجود جو جہاد کیا جائے وہی دراصل اسلامی جہاد ہے ۔ جہاد خود ایک صابرانہ عمل ہے، نہ کہ غیر صابرانہ عمل۔
جہاد بمعنیٰ قتال ایک استثنائی حکم ہے اور صبر ایک عمومی حکم۔اور یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کا عنوان بحیثیت عموم کے اعتبار سےمتعین کیا جائے گا ، نہ کہ استثنا ء کے اعتبار سے۔
سوال
بمبئی کے ایک روز نامہ میں آپ کے خلاف ایک مضمون چھپا ہے۔ اس مضمون کا عنوان یہ ہے’’مولانا وحیدالدین صاحب! صلح حدیبیہ سے پہلے بیعت رضوان بھی ہے‘‘۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ مولانا وحیدالدین صاحب مسلمانوں کو صلح حدیبیہ کی نصیحت کرتے ہیں ۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ صلح حدیبیہ سے پہلے بیعت رضوان ہوئی تھی جس میں صحابہ نے جہاد پر بیعت کی تھی۔اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ یہ سوال یہاں کئی لوگوں کے ذہن میں آرہا ہے۔(فاروق فیصل ، بمبئی)
جواب
بیعت رضوان اگر بالفرض بیعت جہاد ہو تب بھی میری بات ثابت شدہ ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے’’بیعت جہاد‘‘ کے باوجود صُلح حدیبیہ کو قبول فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس سے پہلے کی بیعت ، اگر بالفرض وہ جہاد کی بیعت ہو، تب بھی وہ سنتِ رسول کے مطابق منسوخ قرار پائے گی۔ کیوں کہ اس موقع پر آپ کا جو آخری عمل تھا وہ جہاد کا نہ تھا،بلکہ صلح کا تھا۔مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ بیعتِ رضوان کے نام پر حدیبیہ کے مقام پر جو بیعت ہوئی وہ جہاد یا قتال کی بیعت نہ تھی بلکہ وہ صرف عدمِ فرار کی بیعت تھی۔ چنانچہ بیعت میں شامل ہونے والے صحابی کہتے ہیں کہ— لَمْ نُبَايِعْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَوْتِ، إِنَّمَا بَايَعْنَاهُ عَلَى أَنْ لَا نَفِرَّ( صحیح مسلم، حدیث نمبر 1856)۔ یعنی، ہم نےرسول اللہ سے موت کی بیعت نہیں کی تھی، ہم نے آپ سے صرف اس پر بیعت کی کہ ہم فرار اختیار نہیں کریں گے۔
دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ اگر فریق ثانی کی طرف سے عملی جارحیت کی صورت پیش آجائے تو ہم مقابلہ کا طریقہ اختیار کریں گے، نہ کہ فرار کا طریقہ ۔ اس معاملہ میں اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو اس کے سوا کوئی اور مطلب اس کا نہیں نکلتا۔ یعنی اگر فرار اور عدم فرار کے درمیان انتخاب(option)کا معاملہ ہو تو فرار کو چھوڑ کر عدم فرار کے طریقہ کو اختیار کیاجائے گا۔ اسی طرح اگر جنگ اور صلح کے درمیان انتخاب ہو توصلح کا طریقہ اختیار کیا جائے گا، نہ کہ جنگ کا طریقہ ۔
سوال
آپ نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ حدیث کی کتابوں میں ابواب الفتن کے تحت بیان کردہ روایات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگی طور پر فرما دیا تھا کہ تم اپنے حکمرانوں کے خلاف خروج (بغاوت)نہ کرنا۔ تم ہر حال میں صبر کے اصول پر قائم رہنا۔ تم کسی بھی عذر کو لے کر حکمرانوں سے لڑائی نہ کرنا، بلکہ اپنی بکری اور اونٹ میں مشغول ہو کر اپنے ضروری دینی فرائض کو ادا کرتے رہنا (فکر اسلامی،صفحہ:153)۔
لیکن بہت سی روایات میں آپ کے ا س نقطۂ نظر کے بر عکس ہدایات ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر صحیح ابن حبان میں ہمیں یہ حدیث پڑھنے کو ملتی ہے:
-1 عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ:كُنَّا قُعُودًا عَلَى بَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: اسْمَعُوا قُلْنَا: قَدْ سَمِعْنَا قَالَ: اسْمَعُوا قُلْنَا: قَدْ سَمِعْنَا قَالَ: اسْمَعُوا قُلْنَا:قَدْ سَمِعْنَا قَالَ:إِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ فلا تصدقوهم بكذبهم ولا تعينوهم على ذكر الزَّجْرِ عَنْ تَصْدِيقِ الْأُمَرَاءِ بِكَذِبِهِمْ وَمَعُونَتِهِمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ إِذْ فَاعِلُ ذَلِك لَا يَرِدُ الْحَوْضَ (صحیح ابن حبان،حدیث نمبر284)۔یعنی، حضرت عبداللہ بن خباب اپنے والد حضرت خباب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ہمارے پاس آئے۔ آپ نے فرمایا سنو۔ ہم نے عرض کیا یقیناًہم نے سُنا۔آپ نے فرمایا سنو، ہم نے کہایقیناً ہم نے سُنا۔آپ نے فرمایا ،سنو، ہم نے کہا یقیناً ہم نے سنا۔ آپ نے فرمایا، بے شک میرے بعد حکمراں ہوں گے ، تم اُن کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرنا اور نہ ہی ان کے ظلم کی اعانت کرنا، کیوں کہ جس نے ان کے جھوٹ کو سچ قرار دیااور ان کے ظلم پر ان کی اعانت کی ، وہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں آئے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی جھوٹی باتوں کا فریب دینے والا اور ظلم کرنے والا حکمراں تمہارے اوپر مسلط ہو جائے تو اس کی کسی طرح کی بھی حمایت و اعانت نہ کرو۔
-2 قرآن میں آیا ہے کہ ایک مظلوم شخص کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ ظالم کے خلاف آوازِ حق بلند کرے اور اس دوران اگر مظلوم کی زبان سے کچھ ناشائستہ الفاظ نکل جائیں تو اللہ تعالیٰ اس کی پکڑ نہیں کرتا، کیوں کہ وہ مظلوم کی مظلومیت کو جانتا ہے اور اس کی آہ و فغاں کو سنتا ہے، اس لیے وہ در گزر سے کام لیتا ہے اور وہ ظالم کے خلاف اس کی فریاد کو قبول کرتا ہے۔
ارشاد خدا وندی ہے:لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيْعًا عَلِـــيْمًا (4:148)۔یعنی، اللہ بد گوئی کو پسند نہیں کرتا مگر یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو ،اور اللہ سننے والا ، جاننے والا ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ظالم بادشاہ کا ظلم روکنے کے لیے اس کے سامنے انصاف کی بات کہنا افضل جہاد بتایا گیا ہے:عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ(سنن ابی داؤد،حدیث نمبر4344؛سنن ابن ماجہ4011؛ مسند احمد، حدیث نمبر11144)۔ یعنی، حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا،سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے انصاف کی بات کہنا ہے۔
کچھ لوگ اس حدیث کو دعوت الی اللہ کے معنی میں لیتے ہیںمگر حدیث کے سیاق اور الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر متنِ حدیث میں کلمۂ عدل (انصاف کی بات)کے بجائے کلمۂ حق (حق کی بات) کا فقرہ ہوتا۔
نیز حدیث کا آخری فقرہ سلطان جائر (ظالم بادشاہ)بھی آیا ہے جو اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہاں’’کلمۂ عدل‘‘ سے مراد دعوت الی اللہ نہیں ہے، بلکہ ایک ظالم حکمراں کو ظلم سے روکنا مراد ہے اور اس کے سامنے عدل اور انصاف کی بات کہنا ہے تاکہ وہ بھی اپنی رعایا سے عدل اور انصاف کا معاملہ کرے۔
اس طرح ان واضح دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ— ظلم اور بر بریت کے خلاف عَلمِ بغاوت اٹھانا اور حق اور انصاف کی خاطر اٹھ کھڑا ہونا کوئی غیر شرعی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنا عین شریعتِ اسلامی کے مطابق ہوتا ہے۔
لیکن اگر اس ظلم پر خاموشی اختیار کی جائے تو وہ ظلم کی حمایت اور اعانت تصور کی جائے گی۔ نیز ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص ظالم حکمراں کو تقویت دینے کےلیے اس کے ساتھ چلے ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے باہر سمجھا جائے گا۔
أَنَّ أَوْسَ بْنَ شُرَحْبِيلَ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:مَنْمَشَى مَعَ ظَالِمٍ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ ظَالِمٌ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ(شعب الایمان، حدیث نمبر7676)۔ یعنی،حضرت اوس بن شرجیل سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ، جو شخص کسی ظالم کو تقویت پہنچانے کے لیے اس کے ساتھ چلے اور وہ یہ جانتا ہو کہ وہ ایک ظالم ہے تو وہ شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
ان ساری تفصیل کے بعد سوال یہ ہے کہ آپ کی کتاب ’’فکر اسلامی‘‘ کے حوالے سے اوپر دیے گئے اقتباس اور مندرجہ بالا دوسری احادیث کے درمیان جو نمایاں اختلاف نظر آتا ہے،اُن کے درمیان کس طرح تطبیق دی جائے گی؟(غلام نبی کشافی، سری نگر ، کشمیر)۔
جواب
اگر کوئی حکمراں آپ کو ظالم نظر آئے تو شرعی اعتبار سے ، اس کے خلاف عمل کی دو صورتیں ہیں— خروج اور نصیحت۔
خروج کا مطلب ہے مسلّح بغاوت ، اور نصیحت کا مطلب ہے پُر امن خیر خواہی۔ میرے مطالعے کے مطابق ، ظالم کے خلاف مسلّح بغاوت حرام ہے۔ مگر جہاں تک خیر خواہانہ نصیحت کا معاملہ ہے، وہ عین جائز ہے، بشرطیکہ وہ مثبت نتیجہ پیدا کرنے والی ہو۔ظالم حکمراں کے خلاف مسلح خروج اس لیے حرام ہے کہ وہ ہمیشہ کائونٹر پروڈکٹیو(counter productive) ثابت ہوتا ہے ، اور جو چیز اُلٹا نتیجہ پیدا کرے ، وہ نہ عقل کے مطابق درست ہو سکتی ہے اورنہ دین کے مطابق ۔
میں ذاتی طور پر مسلح بغاوت کے خلاف ہوں ، مگر جہاں تک خیر خواہانہ نصیحت کی بات ہے،میں ہمیشہ اس پر عامل رہا ہوں۔مثال کے طور پر ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب، ہند-پاک ڈائری۔اس معاملے میں آپ نے جو حدیثیں نقل فرمائی ہیں، اُن سے آپ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ ان حدیثوں میں وہی بات کہی گئی ہے جس کا میں خود ہمیشہ قائل رہا ہوں۔ قرآن اور حدیث سے آپ نے جو حوالے دیے ہیں، ان کی وضاحت نمبروار ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
-1 ابن حبان کی جو روایت آپ نے نقل کی ہے ، اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی حکمراںمبینہ طور پر ظالم ہو تو اہل ایمان کو یہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اس کے جھوٹ کو سچ بتانے لگیں، بلکہ اُنھیں اس کے جھوٹ کو جھوٹ بتاناچاہیے۔
یہ واضح طور پر ایک پُر امن اظہارِ خیال کا معاملہ ہے، نہ کہ متشددانہ ٹکراؤ کا معاملہ۔ اور اس قسم کے پُر امن اور خیرخواہانہ اظہارِ خیال سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ ’’ظلم پر اعانت‘‘ کا مطلب صرف یہ ہے کہ اہل ایمان کسی مبینہ ظالم کا آ لۂ کار نہ بنیں، بلکہ وہ اس سے الگ رہیں اور اس کے لیے اصلاح کی دعا کرتے رہیں۔
-2 سورہ النساء کی جو آیت آپ نے نقل کی ہے ، اس میں واضح طور پر’’قول‘‘ کی بات کہی گئی ہے، نہ کہ کسی قسم کے عملی تصادم کی بات ۔ اس آیت سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے،وہ یہ کہ ایک شخص اگر مظلوم ہے تو اس کو یہ حق ہے کہ وہ پُر امن قول کے دائرے میں رہتے ہوئے ظالم کے خلاف بولے۔ یہ عین وہی بات ہے جس کو میں بار بار لکھتا رہا ہوں۔
-3 تیسرے نمبر پر آپ نے جو حدیث نقل کی ہے ، وہ کسی مبینہ ظالم کے خلاف ’’کلمہ‘‘ یا قول کی اجازت دیتی ہے ، نہ کہ عملی تصادم کی اجازت۔ ایک شخص اگر مبینہ طور پر ظالم ہو تو اہل ایمان کو بلاشبہ یہ حق ہے کہ وہ اس کے خلاف امن اور انصاف اور خیرخواہی کی شرائط کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کریں۔ اس حدیث میں بھی واضح طور پر’’کلمہ‘‘کی اجازت ہے، نہ کہ ٹکراؤ اور جنگ کی اجازت۔
-4 چوتھے نمبر پر آپ نے جو حدیث نقل کی ہے ، وہ بھی واضح طور پر’’ مَشیِ‘‘کے بارے میں ہے،نہ کہ جنگ کے بارے میں۔ یعنی اگر کوئی شخص مبینہ طور پر ظالم ہو تو ظلم پر اس کا ساتھ دینا اہل ایمان کے لیے جائز نہیں ۔ ایسے مواقع پر اہل ایمان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ ظالم کے حق میں دعا کریں ، وہ اس کو خیر خواہانہ انداز میں نصیحت کریں ، وہ مکمل طور پر امن کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی اصلاح کی کوشش کریں ۔
آپ نے لکھا ہے کہ ’’اگر ظلم پر خاموشی اختیار کی جائے تو وہ ظلم کی حمایت اور اعانت تصور کی جائے گی‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ یہ خاموشی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ حدیث کے مطابق ، وہ استطاعت کا معاملہ ہے یعنی اس طرح کے معاملے میں دخل دینے کا اصول یہ ہے کہ:
نتیجہ (result) کو سامنے رکھا جائے۔ اگر دخل دینے سے نتیجہ بر عکس نکلتا ہو تو صرف دعا کی جائے گی ۔ دعا کے سوا کوئی اور عملی اقدام نہیں کیا جائے گا ۔اس معاملے کو آپ مشہور حدیث: مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ (صحیح مسلم،حدیث نمبر49) کے مطالعےسے بخوبی طور پر سمجھ سکتے ہیں۔یعنی،تم میں سے جو شخص کسی منکر کو دیکھے، تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روکے، اور اگر وہ اِس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنی زبان سے، اور اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنے دل سے، اور یہ سب سے زیادہ کم زور ایمان ہے۔
سوال
راقم آج کل ’’تذکیر ا لقرآن‘‘ کے ساتھ الرسالہ کا مطالعہ کر رہا ہے۔ الرسالہ کو پڑھ کر مختصراً یہ محسوس ہوا کہ آپ ایک انسان کو اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے معاملات میں ہر صورت میں خود ذمّہ دار ٹھہراتے ہیں اور ہر مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کر نے کا درس دیتے ہیں۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب کہ فریقین باہمی رضامندی سے مسئلہ فساد کو مٹانے کی نیت رکھتے ہوںاور زور آور کم زور کی مجبوری کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے (سیدغلام احمد بخاری، بیروہ، کشمیر)۔
جواب
میں نے جو کچھ لکھا ہے، وہ میں نے اپنے ذاتی خیال کے طور پرنہیں لکھا ہے، بلکہ خدا کے مقرر کردہ قانونِ فطرت کے حوالے سے لکھا ہے۔ہم جس دنیا میں ہیں، اُس دنیا کو خدا نے بنایا ہے۔ یہ خود خدا ہے جس نے اِس دنیا کے لیےقوانین مقرر کیے ہیں۔ہمارے لیے کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم خدا کے قانون کو دریافت کریںاور اُس کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔
قرآن کا مطالعہ کیجیے تو قرآن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اجتماعی معاملہ پیش آئےتو آدمی کو سب سے پہلے خود اپنی غلطی کو دریافت کرنا چاہیے۔ اپنی غلطی کو دریافت کر کے اُس کی اصلاح کرنا، یہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ قرآن میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ تمہارے اوپر جو مصیبت بھی آتی ہے، وہ صرف تمہارے کیے کا نتیجہ ہوتی ہے (42:30)۔ دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اگر تم صبر کرواور تقویٰ کی روش اختیار کروتو دوسروں کی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گی(3:120)۔
اِ س قسم کی آیتوں اور حدیثوں پر غور کیجیےتو معلوم ہوگا کہ شکایت اور احتجاج کا ذہن سر تا سر ایک غیر فطری ذہن ہے۔شکایت اور احتجاج پر مبنی تحر یکوں سے کسی کو کچھ ملنے والا نہیں۔ کیوں کہ ایسی تحریکیں،خدا کے نقشے کے خلاف ہیں۔
ہمارے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی روش پر نظر ثانی کریں۔ داخلی محنت اور پُرامن تدبیر کے ذریعےاپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اِس کےسوا جو طریقہ ہے ، وہ صرف ایک خود ساختہ طریقہ ہے اور ایسے خود ساختہ طریقوں سےخدا کی مدد ملنے والی نہیں۔
سوال
عام تاثر یہ ہے کہ پوری دنیا کی غیر مسلم قومیں مسلمانوں کے درپے ہیں، اور مسلم دنیا سازشوں کے نرغے میں ہے۔کیا یہ صحیح ہے، اور اگر یہ صحیح ہے تو اس کا حل کیا ہے؟(ایک قاری الرسالہ، سری نگر)
جواب
اس قسم کی سوچ بلا شبہ غلط ہے۔کیوں کہ وہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ موجودہ دنیا کو امتحان کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ اس لیے انسان کو خود خالق نے مکمل آزادی عطا کی ہے۔ اور جب آدمی اپنی آزادی کو استعمال کرے گا تو وہ صرف اپنے انٹرسٹ کو دیکھے گا، وہ دوسرے کے انٹرسٹ کو دیکھ کر اپنا منصوبہ نہیں بنائے گا۔یہی وجہ ہے کہ ایک کی آزادی دوسرے کے لیے مسئلہ بن جاتی ہے۔ ایسی حالت میں دوسرے انسان کے لیے صرف یہ چوائس ہے کہ وہ اس قسم کے مسئلے کو چیلنج سمجھے۔ اور دوسرے سے لڑائی یا نفرت کیے بغیر اپنے لیے ترقی کا راستہ نکالے۔یہ بات قرآن میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے: وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا (3:120)یعنی اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی کوئی سازش تم کو نقصان نہ پہنچائے گی۔
اِس آیت میں جورہنمائی دی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر تم کو دوسروں کی طرف سے کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اُس کو سازش بتا کر احتجاج (protest) نہ کرو۔بلکہ صورتِ حال کا بے لاگ جائزہ لے کر مثبت بنیادوں پر اپنی زندگی کی تعمیر کرو۔ زندگی کے مواقع جس طرح ایک شخص کے لیے کھلے ہوئے ہیں، اسی طرح وہ دوسرے شخص کے لیے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ اس لیے کرنے کا اصل کام مواقع کو استعمال کرنا ہے، نہ کہ دوسرے کے خلاف چیخ و پکار کرنا۔
کسی کو دشمن بتا کر اس کے خلاف چیخ و پکار کرنا، باعتبار نتیجہ صرف اپنی تباہی میں اضافہ کرنا ہے۔کیوں کہ یہ ملے ہوئے وقت کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ اس دنیا میں کامیابی کا راز صرف ایک ہے، اور وہ ہے— حالات کے مطابق درست منصوبہ بندی۔
سوال
اپنے علم میں اضافہ کی غرض سے میں نے اپنے 21 جون 2004ءکے خط میں آپ کی مدد چاہی تھی۔ مگر آپ کا جواب مورخہ 3 جولائی اپنی نوعیت میں میرے استفسار کا جواب نہیں ہے بلکہ محض میرے سوال کی تردید ہے۔ عالمانہ جواب باقی ہے۔
’’ذوالکفل‘‘قرآن ہی کے تو الفاظ ہیں ۔ النبی الخاتم کا حوالہ اس لیے نہیں تھا کہ آپ میرے ہم خیال ہو جائیں بلکہ اس لیے تھا کہ براہِ راست اسے دیکھ لیں اور اس کی روشنی میں دوسرے علماء ومفسرین جن تک میری رسائی نہیں ہے، اور آپ کی یقیناً ہوسکتی ہے، ان کی تحقیق یا آراء کی روشنی میں مفصل رہنمائی فرمائیں (محمد رضوان احمد، شیخ پورہ ، بہار)۔
جواب
ذوالکفل کا ذکر قرآن میں دو سورتوں میں آیا ہے:سورہ ص(آیت 48) اور سورہ الانبیاء (آیت 85)۔ مگر قرآن یا حدیث میں ذوالکفل کے بارے میں مزید تفصیل مذکور نہیں ۔ بعض مفسرین مثلاً مفسر آلوسی(صاحب روح المعانی) نے لکھا ہے کہ ذوالکفل سے مرادوہ بزرگ ہیں جن کا ذکر بائبل میں ’حزقی ایل‘ پیغمبر کی حیثیت سے آیا ہے۔
مگر یہ محض قیاس ہے۔ اس کی کوئی بنیاد نہ تاریخ میں موجود ہے اور نہ قرآن وحدیث میں۔ خود بائبل میں ’ حزقی ایل‘ کا ذکر تو ہے مگر بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ ’ حزقی ایل‘ کا لقب ذوالکفل تھا۔ ذوالکفل کے لفظی معنٰی صاحب نصیب کے ہوتے ہیں ۔
میرے نزدیک اس قسم کے مسائل میں زیادہ غور وخوض کرنا درست نہیں ۔ غوروخوض مفید طور پر صرف اُن مسائل میں کیا جاسکتا ہے جن میں رائے قائم کرنے کے لیے کوئی متفق علیہ بنیاد موجود ہو۔ یہ بنیاد صرف دو ہوسکتی ہے، تاریخ یا وحی ۔ مگر ذوالکفل کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے دونوں میں سے کوئی بھی بنیاد دستیاب نہیں ۔
ایسی حالت میں اس سوال کو اُس خانہ میں ڈالنا چاہیے جس کی بابت حدیث میں آیا ہے کہ خدا نے کچھ باتوں کو علم کے باوجود ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ان معاملات میں بحث نہ کرے:وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا (سنن الدار قطنی، حدیث نمبر4396)۔
ذوالکفل کے بارے میں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اُن کا ذکر قرآن میں کس پہلو سے آیا ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ ذوالکفل اور دوسرے انبیاء کا ذکر کر کے قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ یہ سب کے سب صبر کرنے والے لوگ تھے (21:85)۔ایسی حالت میں ہمیں اس سے یہ نصیحت لینا چاہیے کہ ذوالکفل اور دوسرے پیغمبروں کا کردار صابرانہ کردار تھا۔ ہمیں بھی اِسی پیغمبرانہ اُسوہ کو لیتے ہوئے ہر معاملہ میں صبر کی روش اختیار کرنا چاہیے۔
سوال
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ میں تشدد کا حامی نہیں ، لیکن دشمنوں کی سازش سے واقف ہونا تو بہت ضروری ہے۔براہِ کرم اِس معاملے میں وضاحت فرمائیں ۔(ڈاکٹر محمد اسلم خان، سہارن پور)
جواب
قرآن میں بتایا گیا ہےکہ:وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا(3:120) ۔ یعنی، اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو تو ان کی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی۔
دوسرے الفاظ میں، سازش سے واقف ہونا سازش کا توڑ نہیں ہے، بلکہ صبر اور تقوی کی روش اس کا توڑ ہے۔ قرآن کی اس آیت پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اس معاملے میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلمانوں کی بے صبری اور ان کے غیر متقیانہ مزاج سے واقفیت حاصل کی جائے ، اور پھر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔
کیوں کہ مسلمانوں کے اندر صبر اور تقوی کی روش پیدا کر کے ہی سازش کو بے اثر بنایا جا سکتا ہے۔ قانونِ فطرت کے تحت ’’سازش‘‘ کا خاتمہ ممکن نہیں،البتہ یہ ممکن ہے کہ مسلمان اپنے مثبت رد عمل کے ذریعے اپنے آپ کو اس کے نقصان سے بچا سکیں۔
جس چیز کو ’’سازش‘‘ کہا جاتا ہے ، وہ دراصل ایک امرِ فطری ہے۔ اس کا تعلق خدا کی دی ہوئی آزادی سے ہے ۔ یہ آزادی مصلحتِ امتحان کی بنا پر دی گئی ہے ، اس لیے وہ قیامت تک باقی رہے گی ، اس کو ہر گز ساقط نہیں کیا جا سکتا۔ کرنے کا کام یہ نہیں ہے کہ لاحاصل طور پر خود سازش کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی جائے ۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو اتنا با شعور بنایا جائے کہ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہوں۔ مشتعل نہ ہو کر سازش کو بے اثر بنایا جا سکتا ہے ۔ اس معاملے میں اصل حقیقت تدبیر کار کی ہے، نہ کہ سازش سے با خبر ہونے کی۔ اِسی لیے قرآن میں یہ نہیں فرمایا کہ اے مسلمانوں ، تم سازش سے با خبر رہو، بلکہ یہ فرمایا کہ تم ہر حال میں صبر کی روش اختیار کرو۔ صبر کی روش اختیار کر کے تم سازش کا شکار ہونے سے بچ جاؤ گے۔
سوال
میں ایم اے انگریزی (M.A. English from IGNOU)کی طالبہ ہوں اور جنوری 2002ء سے میں الرسالہ پڑھتی رہی ہوں ۔ پہلی بار جب الرسالہ میرے ہاتھوں میں آیا تو میری خوشی کی انتہانہ رہی اور پڑھنے کے بعد حقیقت میں دل بہت خوش ہوا اور سب سے بڑی بات یہ کہ میں الرسالہ سے فوراً متاثر ہوگئی۔اس سے میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ ایسا لگا جیسے الرسالہ صرف دل کو ہی نہیں بلکہ روح کو بھی تسکین دیتا ہے۔ تب سے میں نہایت ہی پابندی کے ساتھ الرسالہ کا مطالعہ ہر ماہ کررہی ہوں۔ بے شک اس کے مطالعے سے میںنے بہت کچھ سیکھا ہے۔ بہت کچھ حاصل کیا ہے اور میں اس کا پورا کریڈیٹ آپ کے نام کروں گی۔
بلا شبہ آپ کی عظیم شخصیت کی بدولت ہی یہ سب کچھ ممکن ہو سکا ۔ بے شک مجھے اس کے ذریعے اسلام کی حقیقت سے روشناس ہونے کا موقع ملا ۔ مگر کچھ باتوں سے میں متفق نہیں ہوں ۔ وہ یہ کہ ہر معاملے میں مسلمانوں کو قصوروار ٹھہرانا ۔ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔ پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ یہ مسلمانوں کی غلطی کا ثمرہ ونتیجہ ہے (رخشاں ہاشمی ، مونگیر)۔
جواب
’’مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرانا‘‘ایک غیر متعلق بات ہے ۔ اس طرح کے معاملات میں اصل سوال یہ جاننے کا ہے کہ فطرت کا قانون کیا ہے ۔ ہماری رائے فطرت کے قانون کے مطابق ہونی چاہیے، نہ کہ اپنے جذبات یا خواہشات کے مطابق ۔ قرآن میں فطرت کا یہ قانون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ (42:30) ۔ یعنی، اور جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں ہی سے پہنچتی ہے۔قرآن کی یہ آیت حتمی الفاظ میں بتا رہی ہے کہ لوگوں کے اوپر جو مصیبت آتی ہے وہ ان کے اپنے ہی کیے کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ ایک اور آیت میں فرمایا : وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا(3:120)۔ یعنی،اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی تدبیر تم کو نقصان نہ پہنچا سکے گی۔
اِ س دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں اصل مسئلہ ’’اغیار کی سازش ‘‘کی موجودگی نہیں ہے، بلکہ خود مسلمانوں کے اندر صبر اور تقویٰ کی غیر موجودگی ہے۔ یعنی اگر مسلمانوں میں صبر اور تقویٰ ہوگا تو وہ اَغیار کی سازش سے محفوظ رہیں گے اور اگر صبر اور تقویٰ نہیں ہوگا تو وہ اغیار کی سازشوں کا شکار ہوجائیں گے۔
ان قرآنی آیات کے مطابق ، آپ نے جن باتوں کے بارے میں اپنے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے، اس کا تعلق الرسالہ سے نہیں ہے،بلکہ خود قرآن سے ہے ۔ آپ کو اگر کہنا ہے تو یہ کہیے کہ مجھ کو قرآن کی بات سے اتفاق نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ بات الرسالہ کی بات نہیں ہے،بلکہ وہ خود قرآن کی بات ہے ۔
مذکورہ قسم کی آیتوں کا مطالعہ کرنے سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ جب کوئی اُفتاد پڑے تو مسلمانوں کے اندر احتساب خویش(introspection) کا جذبہ جاگنا چاہیے ۔ دوسروں کے خلاف احتجاج اور شکایت کرنا ، سراسر قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
سوال
میرا ایک مسئلہ ہے جس نے مجھ کو بہت مغموم کر رکھا ہے۔ مسئلہ یوں ہے کہ بندہ بالوں کے گرنے کی پرابلم سے دوچار ہے۔ بال گرتے تو ہیں مگر دواؤں کے باوجود ،وہ دوبارہ نہیں اُگتے ۔ کیا رب العالمین اس پر قادر نہیں ۔ کیوں ایسا ہے کہ خدا نے کسی کے سر پر خوبصورت بال دیے اور کسی کو گنجا بنادیا۔ برائے مہربانی آپ اپنی رائے سے نوازیں (عمر رفیق ، سری نگر، کشمیر)۔
جواب
آپ کے جذبات قابل قدر ہیں ۔ بال کے بارے میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں ہر چیز آزمائش کے لیے ہوتی ہے ، ملنا بھی اور نہ ملنا بھی ۔ اسی طرح آدمی کے سر پر اچھے بال کا اُگنا بھی آزمائش ہے اور بال کا جھڑنا یا سفید ہونا بھی آزمائش ۔ اس آزمائش میں پورا اتر نایہ ہے کہ آدمی دونوں حالتوں کو یکساں طور پر خدا کی طرف سے سمجھے، وہ ملنے پر نازاں نہ ہو اور نہ ملنا اس کو مایوسی میں مبتلا نہ کرے۔
آپ بال کے مسئلہ کے بارے میں علاج کریں، مگر کسی بھی حال میں مایوسی کا شکار نہ ہوں ۔ بلکہ اللہ سےیہ دعا کریں کہ اے اللہ ، میں تیرے فیصلہ پر راضی ہوں ، تو میرے لیے حسن تلافی کا فیصلہ فرما۔ مجھے آخرت میں جنت دے دے، جہاں نہ کوئی بیماری ہوگی اور نہ کوئی محرومی۔ انسان کو خود سے دنیا میں کوئی مصیبت نہیں مانگنا چاہیے ۔لیکن اگر اس پر کوئی مصیبت آجائے تو اُس وقت اُس کو کامل صبرکی روش اختیار کرنی چاہیے۔ یہی مومن کا طریقہ ہے اور یہی جنت کی قیمت ہے۔
سوال
آج ساری دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے جذبات ابھارے جا رہے ہیں ۔ کہیں کارٹون بنانے کے واقعات پیش آ رہے ہیں تو کہیں قرآن کریم کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ ایسی صورت میں امتِ مسلمہ کا کیا رول ہونا چاہیے؟ (جیسا کہ ظلم و ستم کو روکنے کا حکم ہے اور نہ روک سکیں تو دعا کرنے کا حکم)۔ برائے مہربانی قرآن اور حدیث کی روشنی میں جواب دیں، جیسا کہ آپ کرتے ہیں۔ یہ بتائیں کہ مسلمان روکنے کی پوزیشن میں ہیں یا صرف دعا کرنے کی پوزیشن میں ۔ آپ کی بات اور آپ کا انداز سب سے جدا ہے اور مجھے مطمئن کرنے والا ہوتا ہے۔ (حماد احمد، نئی دہلی)
جواب
یہ کہنا درست نہیں کہ مسلمانوں کے جذبات ابھارے جا رہے ہیں ، یا ان کو مشتعل کیا جا رہا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمان بعض واقعات پر غیر ضروری طور پر مشتعل ہو رہے ہیں ، وہ غیر ضروری طور پر اُن واقعات پر بھڑک اٹھتے ہیں ۔ قرآن اور حدیث میں صبر و تحمل پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، حتیٰ کہ نماز سے پہلے صبر کا حکم ہے:وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ (2:45)۔
مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ نماز تو دھوم سے پڑھتے ہیں ، لیکن وہ صبر کو پوری طرح چھوڑے ہوئے ہیں۔ اس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ مسلمان خود اپنے رویے کو بدلیں۔
آپ نے لکھا ہے کہ اس معاملے میں مسلمان کیا کریں ، وہ ان واقعات کو روکیں یا وہ اُس کے لیے دعا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کو خود اپنے آپ کو روکنا ہے اور خود اپنے لیے دعا کرنا ہے۔ کارٹون کا واقعہ یا قرآن کی بے حرمتی جیسی خبریں سن کر بھڑک اٹھنا ، یہی مسلمانوں کی اصل غلطی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ جب وہ ایسی کوئی خبر سنیں تو وہ فوراً متعلق افراد سے ملیں اور اُن کو اسلامی لٹریچر پڑھنے کے لیے دیں ۔
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موجودہ دنیا میں ہر انسان کو مصلحتِ امتحان کی بنا پر آزادی دی ہے ۔ مذکورہ قسم کا کوئی واقعہ خدا کی دی ہوئی آزادی کا صرف ایک غلط استعمال ہوتا ہے۔ چوںکہ آپ آزادی کو ختم نہیں کر سکتے ، اس لیے اُس کے خلاف لڑنا بھی آپ کے لیے درست نہیں۔آپ صرف یہ کر سکتے ہیں کہ تبلیغ و نصیحت کے ذریعے اُس آدمی کی سوچ کو بدلیں ، اسلام کے صحیح تعارف کے ذریعے اُس کے ذہن کو درست کریں اور اس کی اصلاح کے لیے اللہ سے دعا کریں۔
سوال
ایک صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں :مزاج کاملیت پسند(Perfectionist) ہے۔ جو جذباتی نقصان ہو گیا، دل آج تک اُسی میں پھنسا ہوا ہے۔ کچھ اسباب کی بنا پر معاشرے میں جو مل رہا ہے، وہ دل سے قبول تو نہیں۔ لیکن کیا صبر کرکے جو مل رہا ہے اُس پر گزارا کیاجائے، یہ سوچ کر کہ جو ملا ہے وہ اسی دنیا تک ہے۔ اورمن پسند چیز آخرت میں ملے گی۔(ایک قاری الرسالہ، پاکستان)
جواب
آپ نے جس تجربے کا ذکر کیا ہے، اُس کا تعلق آخرت سے یا جنت سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق صرف دنیا کے بارے میں قانونِ فطرت سے ہے۔ موجودہ دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طور پر حوصلہ مند (ambitious)پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اِس عارضی دنیا میں محدودیت (limitations)کا قانون ہے۔اس لیے یہاں ہر ایک شخص کو اس کے اپنے حوصلے کی نسبت سے کم ملتا ہے۔ تاریخ میں کوئی بھی شخص ایسا پایا نہیں جاتا، جس نے اپنے حوصلے کے بقدر دنیا کو حاصل کیا ہو۔
اس حقیقت کی بنا پر اس دنیا میں انسان کے لیے دانش مندی یہ ہے کہ وہ حقیقت پسند بنے، یعنی زیادہ چاہے مگر کم پر راضی ہوجائے۔ موجودہ دنیا کا یہ قانون قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ (2:155)۔یعنی ،اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سےاور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو۔
یہ آیت موجودہ دنیا کے مادی قانون کو بتا رہی ہے۔ اس دنیا میں ایسا ہوگا کہ یہاں انسان کو مختلف پہلوؤں سے نقصان کا تجربہ ہوگا۔ کسی شخص کے لیے اس دنیا میں نقصان سے بچنا ممکن نہیں، نہ صالح لوگوں کے لیے، اور نہ غیر صالح لوگوں کے لیے۔ایسی حالت میں انسان کے لیےصرف ایک چوائس ہے، اور وہ صبر ہے۔صبر کوئی بزدلی کی بات نہیں۔
صبر دانش مندی کی بات ہے۔ صبر کا مطلب ہے، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی ملے ہوئے پر کرنا، اور جو نہیں ملا اُس کو خدا کی اسکیم آف تھنگس(scheme of things) کے خانے میں ڈال دینا۔ یعنی جو ملا اُس کو اپنا سمجھنا، اور جو نہیں ملا اُس کے بارے میں اِس اصول پر راضی ہونا کہ وہ خدا کا فیصلہ تھا، اور خدا کے فیصلے کو کوئی بدل نہیں سکتا۔