بے خبرانسان
نومبر2004ء میں بمبئی (ممبئی)کے لیے میرا ایک سفر ہوا۔ اس سفر میں ایک بڑا عبرت ناک واقعہ معلوم ہوا۔ ممبئی میں نیتومانڈکے نامی ایک ڈاکٹر تھے۔ 2003ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ امراضِ قلب کے بہت بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ سرجری میں اُن کو کمال حاصل تھا۔ انہوں نے بہت سے دل کے مریضوں کی کامیاب سرجری کی تھی۔ آخر میں اُن کو اپنے فن پر بہت غرور آ گیا تھا۔یہاں تک کہ وہ خدا کے منکربن گئے ۔
ایک صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک بار ایک مسلم خاتون کے دل کا آپریشن کیا۔ آپریشن سے صحتیابی کے بعد مسلم خاتون نے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی، اور بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ آپریشن کامیاب رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا اس میں خدا کی کیا بات ہے۔ تم پیسہ دو اور میں تم کو صحت دوں گا:
Give me money and I will give you cure.
وہ ایک آپریشن کا معاوضہ تین لاکھ روپیے لیتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ خود اُن کا انتقال دل کے دورے میں ہوا۔ وہ اپنی قیمتی کار میں سفر کررہے تھے، ہندو جا ہاسپٹل پہنچے کہ اچانک اُن پر دل کا دورہ پڑا۔ ان کو فوراً اسپتال لے جایا گیا، اتفاق سے وہاں اُس وقت جو عملہ تھا وہ ان کو پہچانتا نہ تھا۔ چنانچہ اسپتال میں ان کے ساتھ بے توجہی کا معاملہ ہوا۔ وہ بے بسی کے ساتھ چلّاتے رہے کہ میں ڈاکٹر مانڈکے ہوں۔ مگر عدم واقفیت کی بنا پر وہاں بَر وقت ان کا صحیح علاج نہ ہوسکا اور اسپتال ہی میں ان کا خاتمہ ہوگیا۔
ممبئی کے ایک دوسرے سرجن، ڈاکٹر کامران سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے بتایا کہ انسان کے جسم میں ایک خاص عنصر ہوتا ہے۔ یہی آپریشن کے بعد اندمال (healing)کا سارا کام کرتا ہے۔ اگر یہ عنصر نہ ہوتو تمام سَرجن بے روزگار ہوجائیں۔ ڈاکٹر مانڈکے اگر اِس پوری حقیقت پر غور کرتے تو وہ ہر سرجری کے بعد اپنے عجز کو دریافت کرتے۔ لیکن غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے وہ برعکس طورپر سرجری کے واقعے میں اپنی مہارت دیکھتے رہے۔ اس لیے ایسا ہوا کہ جس واقعے میں انہیں عجز کی غذا مل رہی تھی، اُس سے وہ غلط طورپر کبر کی غذا لیتے رہے اور آخر کار اسی بے خبری کے ساتھ اُن کا خاتمہ ہوگیا۔
موجودہ زمانے میں یہ مزاج بہت زیادہ عام ہوچکا ہے — نعمتوں کا استعمال، لیکن مُنعم کا اعتراف نہیں۔ہر انسان مکمل طورپر عاجز ہے مگر وہ اپنے آپ کو قادر سمجھ لیتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ غور و فکر سے کام نہیں لیتا۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر کام خارجی اسباب کی رعایت کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ آپ کی زندگی میں 99 فی صد سے زیادہ حصہ خدا کا ہے اور ایک فی صد سے بھی کم حصہ آپ کی اپنی کوشش کا۔ ایسی حالت میں انسان کے اندر اعتراف (شکر ) کا جذبہ خدا کے لیے ہوناچاہیے، نہ کہ اپنی ذات کے لیے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں تمام دنیا کے لوگ بے خبری میں مبتلا ہیں۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ زمانے میں خدا نے انسان کو نہایت قیمتی چیزیں عطا کی ہیں، جو قدیم زمانے میں بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں تھیں۔ مگر میر ے تجربے کے مطابق، بیش تر لوگ ان کا صرف غلط استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً جدید کمیونی کیشن خدا کی ایک عظیم نعمت ہے مگر غالباً اس نعمت کا تقریباً 95 فیصد حصہ صرف بے فائدہ یا غلط مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اور جہاں تک کہ اس نعمت پر شکر کا تعلق ہے وہ تو میں نے اپنے تجربے میں حقیقی طور پر کسی کے اندر پایا ہی نہیں، نہ مذہبی لوگوں میں اورنہ سیکولر لوگوں میں۔ اس معاملے میں دونوں کی حالت ایک ہے — اپنے دین کوجانچنے کا معیار یہ ہے کہ آپ دیکھیے کہ آپ کے اندر شکر کی نفسیات ہے یا نہیں۔