صبر کا ہتھیار
4 ستمبر1980ء کا واقعہ ہے۔ مسز کملیش(22سال)،شاہدرہ کی ایک سڑک پر چل رہی تھیں۔ ان کے گلے میں سونے کی زنجیر تھی۔ اچانک اشوک نامی ایک شخص جس کی عمر25سال تھی جھپٹا اور مسز مکیش کی زنجیر کھینچ کر بھاگا۔ پولیس کانسٹبل کشن چند تیاگی (42سال)اس وقت ڈیوٹی پر گھوم رہے تھے۔ کسی نے ان کو واقعہ کے بارے میں بتایا۔ وہ تلاش کرتے ہوئے ایک بالمیکی مندر میں پہنچے جہاں مجرم موجود تھا۔ پولیس کی وردی دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ کشن چند نے اس کا پیچھا کیا ۔ مجرم کے پاس ایک ریوالور تھا۔ اس نے فائر کیا تو اس کی گولی کشن چند کی آنکھ کے نیچے ان کے چہرہ اور گردن کو زخمی کر تی ہوئی گزرگئی۔ انھوں نے چلا کر کہا ایک بار تو نے مجھے مار دیا۔ پر دوبارہ تو نہیں مار سکتا۔ مجھے معلوم نہیں تھا تیرے پاس ریوالور ہے ۔ اب وہ چوکنا ہو گئے۔ مجرم نے دوبار اور گولی چلائی ۔ مگر ہر بار وہ نہایت پھرتی کے ساتھ بیٹھ گئے اور اس کے وار کو خالی کر دیا ۔ کشن چند کسی خوف کے بغیر تنہا مجرم کا پیچھا کرتے رہے جب کہ دشمن کے پاس ریوالور تھا اور ان کے اپنے پاس لاٹھی بھی نہیں تھی۔ دوڑتے دوڑتے آخر کار ساڑھے چارفٹ کی ایک چہار دیواری سامنے آگئی۔ مجرم اس پر کو د گیا ۔ کشن چند نے بھی فوراً چھلانگ لگائی اور دوسری طرف جا کے اس کو پکڑ لیا۔
’’ ایک مسلّح مجرم کو دوڑاتے ہوئے آپ کو ڈر نہیں لگا‘‘۔ ایک اخبار نویس نے کشن چند سے پوچھا ۔’’نہیں‘‘ ۔ انھوں نے جواب دیا ۔ میں جانتا تھا کہ جب اس کا ریوالور خالی ہو چکا ہو گا تو میں اس کو پکڑ لوں گا ۔ مجرم کے پاس تین گولی تھی۔ کشن چند نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ اس کی تینوں گولیاں خالی کرا دیں ۔ اب مجرم کا ہتھیار نا قابل استعمال ہو چکا تھا۔ کشن چند نے اس کو پکڑلیا (ہندوستان ٹائمز، ستمبر1980ء)۔
اس چھوٹے سے واقعہ میں بہت بڑا سبق ہے۔ اکثر حالات میں حریف سے مقابلہ کا بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی مرحلہ میں اس کے وار کو خالی کر دیا جائے، یہاں تک کہ اس کے ہتھیار کی’’تین گولی‘‘ختم ہو جائے۔ پھر اس سے مقابلہ کرنا نہایت آسان ہو گا۔ مثلاً ایک شخص آپ سے طاقتور ہے اور وہ آپ کی کسی بات پر برہم ہو جاتا ہے۔ جب وہ آپ کو ڈانٹنا اور بگڑنا شروع کرے تو ابتدا میںآپ اس کے وار کو خالی کر دیں، یعنی بالکل چپ ہو کر اس کی بات کو سنتے رہیں ۔ یہاں تک کہ جب اس کے الفاظ ختم ہو جائیں اور اس کی بھڑاس نکل جائے، اس وقت سنجیدگی کے ساتھ صورت حال کے بارے میں اس کو بتائیں۔ اگر آپ ابتداء میں اس قسم کا صبر دکھائیں تو آپ یقیناً کامیاب رہیں گے ۔ کیوں کہ اب وہ اپنے ہتھیار کی’’تین گولیاں‘‘ختم کر چکا ہے اور اب بہت آسانی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح کچھ لوگ ہیں جو آپ کے خلاف متحد ہو کر آگئے ہیں اور آپ کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ غور کیجیے تو یہ اتحاد صرف اس بنیاد پر ہو گا کہ آپ ان کے سامنے ان کے حریف بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔ اگر آپ حکمت عملی کا طریقہ اختیار کریں اور کچھ دیر کے لیے اپنے کو نشانہ سے ہٹا دیں تو آپ دیکھیں گے کہ ان کا اتحاد ٹوٹ رہا ہے۔ ان کے اتحاد کےہتھیار کی گولی آپ کا حریف بن کر کھڑا ہونا تھا۔ جب آپ نے اپنے کو حریف کے مقام سے ہٹا دیا تو گویا آپ نے ان کی’’تینوں گولیاں‘‘خالی کرادیں۔ اس کے بعد وہ اپنے آپ منتشر ہو جائیں گے اور جو گروہ اختلاف اور انتشار میں پڑ جائے اس کو ختم کرنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایسا گر وہ خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے کو ختم کر لیتا ہے۔
کوئی حریف جب سامنے آتا ہے تو آدمی جوش میں آکر اس سے لڑنے لگتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے ہی مرحلہ میں وہ حریف کی طاقت کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اگر آدمی صبر اور دانش مندی سے کام لے اور مقابلہ کے ابتدائی مرحلہ میں حریف کے وار کو خالی جانے دے تو بہت جلد ایسا ہو گا کہ حریف خود اپنی کارروائیوں کے نتیجہ میں اپنے کو غیر مسلح کر چکا ہوگا۔ یا د رکھئے، کوئی بھی شخص جو آپ کے مقابلہ میں آتا ہے اس کے پاس ہمیشہ’’تین‘‘ہی گولیاں ہوتی ہیں۔ لاتعداد گولیاں کسی کے پاس نہیں ہوتیں۔ اگر آپ یہ ہوشیاری دکھائیں کہ مقابلہ کے آغاز میں کسی طرح اپنے کو نشانہ سے ہٹالیں تو اس کے بعد یقینی طور پر ایسا ہو گا کہ دشمن اپنی’’تین گولیوں‘‘کو ختم کر کے خالی ہاتھ ہو چکا ہوگا۔ اب زیادہ بہتر طور پر وہ وقت آجائے گا کہ آپ اس کو زیر کر سکیں۔ یہ کامیابی ہر ایک حریف کے اوپر حاصل کی جاسکتی ہے۔ بشرطیکہ مقابلہ پیش آنے کے بعد آدمی اپنے حو اس کو نہ کھوئے۔