مثبت اثر
مشہور نحوی عمرو بن عثمان سیبویہ(وفات 180ھ)ایران میں پیدا ہوا اور بصرہ میں پرورش پائی ۔ اس کی نوجوانی کا واقعہ ہے جب کہ وہ حدیث وفقہ کا طالب علم تھا۔ ایک دن وہ محدث حماد بن سلمہ(وفات167ھ)کی مجلس میں تھا۔ انھوں نے ایک حدیث کا املا کراتے ہوئے کہا: لَيسَ مِنْ أَصْحَابِي إلَّا مَنْ شِئْتُ لأخَذْتُ عَلَيهِ لَيسَ أبَا الدَّرْدَاءِ۔ سیبویہ یہ سن کر بول اٹھا:لَيسَأبُوالدَّرْدَاءِ۔ اس پر حماد نے چلا کر کہا:سیبویہ تم غلطی پر ہو۔ یہ( عربی گریمر کے لحاظ سے) استثناء ہے (اس لیے’’ابو‘‘کے بجائے’’ابا‘‘ہوگا)۔ سیبویہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے اپنے جی میں کہا کہ میری نحو کمزور ہے اور مجھے اس میں مہارت پیدا کرنی چاہیے۔ اب اس نے نحو سیکھنا شروع کر دیا(طبقات النحویین و اللغویین، صفحہ66)۔
وه بصرہ وکوفہ کے نحوی علماء خلیل، یونس اور عیسیٰ بن عمر کی مجلسوں میں جانے لگا۔ اس نے اس فن میں اتنی محنت کی کہ بالآخر وہ اس کا امام بن گیا۔عربی نحو و ادب کے شاذ مسائل میں اس کا کوئی ثانی نہ رہا۔ اس کے بعد اس نے نحوپر ایک ایسی کتاب لکھی جو اپنی اہمیت اور بلندی کی وجہ سے’’الکتاب‘‘کے نام سے مشہور ہے ۔ اس فن کے علماء کا کہنا ہے کہ فن نحو پر اس کے برابر کی کوئی کتاب آج تک لکھی نہ جاسکی— جس شخص کی نحو کمزور تھی، وہ تاریخ کا سب سے بڑا نحوی بن گیا ۔
ہر شخص کی زندگی میں ایسے واقعات آتے ہیں جب کہ اسے ٹھیس لگتی ہے ۔ جب اس کو دوسروں کی طرف سے بے اعترافی کی ذلت اٹھانی پڑتی ہے۔ جب وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان بے جگہ ہو گیا ہے۔
ایسے مواقع پر اثر لینے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی ان تجربات کے بعد بے ہمتی اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے ۔ ایسے آدمی نے گویا اپنے آپ کو مار لیا۔ دوسرا شخص وہ ہے جس کے لیے ایسا تجربہ ایک مہمیز بن جائے ۔ ایسے آدمی کے لیے اس کاتجر بہ اس کی صلاحیتوں کو جگانے کا باعث بن جاتا ہے۔ وہ از سر نو محنت اور عمل کے رخ پر چل پڑتا ہے، یہاں تک کہ ماضی کا نا کام انسان مستقبل کا کامیاب انسان بن جاتا ہے۔ مثبت تاثر آدمی کو کامیابی کی طرف لے جاتا ہے اور منفی تاثر نا کامی اور بربادی کی طرف ۔