حقیقت پسندی
اگر آپ میدان میں ہوں اور بارش آجائے تو آپ بھاگ کر سایہ کے نیچے چلے جاتے ہیں ۔یہ پسپائی نہیں ہے بلکہ حقیقت پسندی ہے۔ اسی طرح اگرزلزلہ آجائے تو آپ گھر سے نکل کر کھلے میدان میں آجاتے ہیں۔یہ بھی پسپائی نہیں ہے بلکہ ایک فطری حقیقت کا اعتراف ہے۔ جہاں انسان کا اور فطرت کا معاملہ ہو وہاں مسئلہ کا حل صرف اعتراف ہوتا ہے، نہ کہ ٹکرائو۔
بارش اور زلزلہ کانظام جو خالق فطرت نے دنیا میں رکھ دیا ہے۔ انسان اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔ انسان صرف یہ کر سکتا ہے کہ اپنے آپ کو اس کے نقصان سے بچانے کی تدبیر کرے۔ اور اس کے نقصان سے بچنے کی واحد تدبیر یہ ہے کہ اعراض کا اصول اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس کی زد سے ہٹا دیا جائے۔ اسی لیے آپ بارش کے وقت سایہ میں آجاتے ہیں اور زلزلہ کے وقت میدان میں ۔
ٹھیک یہی معاملہ صبر اور اعراض کے اصول کابھی ہے۔ صبر اور اعراض کارویہ کسی قسم کی بزدلی یا پسپائی نہیں ہے۔ وہ سادہ طور پر صرف حقیقت پسندی ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ خالقِ فطرت نے انسان کو امتحان کی غرض سے آزادی عطا کی ہے۔ انسان اپنی آزادی کا استعمال کبھی صحیح کرتا ہے او رکبھی غلط ۔ اب آپ کیاکریں۔ اگر آپ ہر انسان سے لڑنے لگیں تو لوگوں سے آپ ان کی آزادی چھین نہیں سکتے۔ کیوں کہ یہ آزادی ان کو خود مالک ِکائنات نے دے رکھی ہے، لوگوں کی آزادی چھیننے کی بے فائدہ کوشش کانتیجہ صرف یہ ہوگا کہ آپ اپنے نقصان میں اضافہ کرلیں گے۔
ایسی حالت میں صرف ایک ہی ممکن رویہ ہے ۔ اور وہ وہی ہے جس کو صبر (patience) کہاجاتا ہے۔یعنی لوگوں کی طرف سے اگر کبھی تلخی اور ناگواری پیش آجائے تو اس سے اعراض کرتے ہوئے اپنا سفرِ حیات جاری رکھا جائے۔
صبر واعراض دوسروں کامسئلہ نہیں ، وہ خود اپنا مسئلہ ہے۔ بے صبری آدمی کے سفر کو روک دیتی ہے۔ اور صبر اس بات کوممکن بناتا ہے کہ آدمی کی زندگی کاسفر کامیابی کے ساتھ جاری رہے، یہاں تک کہ وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جائے۔