صبر ذہنی ارتقاء کا ذریعہ
اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک کو دوسرے سے شکایت ہوجاتی ہے۔ ایک کی کسی بات سے دوسرے کے اندر غصہ اور نفرت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایک کا کوئی رویہ دوسرے کے اندر انتقامی جذبات بھڑکا دیتا ہے۔ ایسے موقع پر اکثر لوگ بدلہ کے ذہن سے سوچنے لگتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنی بے عزتی پر چپ ہوجائیں تو یہ ہماری غیرت کے خلاف ہوگا۔ یہ حمیت اور غیرت سے سودا کرنے کے ہم معنٰی ہوگا۔
مگر یہ سوچ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا موقع ذلت کا موقع نہیں بلکہ وہ فکری اور روحانی ترقی حاصل کرنے کا موقع ہے۔ غصہ کے موقع پر صبر کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ دراصل خود اپنی تربیت کا موقع ہے۔ وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنے کا موقع ہے کہ آدمی اپنی داخلی شخصیت کو اتنا مضبوط بنائے کہ وہ خارجی حالات سے اثر لیے بغیر زندہ رہ سکے۔
جو آدمی غصہ اور نفرت اور اشتعال میں مبتلا ہوجائے وہ اپنی اس روش سے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ خارجی اشتعال انگیزی کے وقت غیر متاثر نہ رہ سکا۔ ایسے آدمی کا ذہنی اور روحانی سفر رک جائے گا۔ اس کی شخصیت میں فکری ارتقاء کا عمل جاری نہ ہوسکے گا۔
اس دنیا میں پانے کی سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آدمی کا فکر مسلسل ترقی کررہا ہو۔ اسی فکری ترقی سے روحانی ترقی بھی جڑی ہوئی ہے۔ جہاں فکری ارتقاء ہو گا وہاں روحانی ترقی بھی ضرورپائی جائے گی۔ اور یہ فکری ارتقاء اسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی اپنے آپ کو اتنا طاقتوربنائے کہ وہ منفی سوچ کو اپنے اندر داخل ہونے سے روک دے۔
صبر در اصل خود اپنے فکری اور روحانی ترقی کی قیمت ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی چیز ضروری قیمت کے بغیر نہیں ملتی۔ اسی طرح فکری اور روحانی ترقی بھی اس خوش قسمت انسان کا حصہ ہے جو صبر کی صورت میںاس کی قیمت دے سکے۔