اعراض کا فائدہ
پونہ کے ایک سفر میں وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ22 ستمبر1991ء کو پونہ میں گنیش چترتھی کا جلوس نکلنے والا تھا۔ اسی دن12 ربیع الاول کی تاریخ بھی تھی، اور اس کی نسبت سے مسلمان اپنا میلاد النبی کا جلوس نکالنا چاہتے تھے ۔ اگر دونوں جلوس ایک ہی دن نکلتا تو یقینی تھا کہ دونوں میں ٹکراؤ ہو اور فرقہ وارانہ فساد کی صورت پیدا ہو جائے۔ اور پھر جشن کا دن شہر کے لیے غم کادن بن جائے۔
پونہ کی سیرت کمیٹی کی دانش مندی سے یہ خطرہ ٹل گیا۔ انھوں نے ایک اجتماع کر کے مشورہ کیا کہ ایسی حالت میں کیا کیا جائے ۔ اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا کہ ہم لوگ اس معاملہ میں اعراض کا طریقہ اختیار کریں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی تاریخ بدل دی۔ انھوں نے میلاد النبی کا جلوس چند دن کی تاخیر کے ساتھ 27 ستمبر کو نکالا۔ اس طرح ہند و جلوس اور مسلمان جلوس دونوں پر امن طور پر دو الگ الگ تاریخوں میں نکلے اور کسی ٹکراؤ کی نوبت نہیں آئی۔
اس واقعہ پر شہر کے تمام لوگ بہت خوش ہوئے۔ اور مسلمانوں کی دانش مندی کو سراہا۔ خاص طور پر پولیس کے لوگوں نے بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا۔ اور مسلمانوں کے اس عمل کی تعریف کی۔ انھوں نے مسلمانوں سے مل کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ فساد نہ ہونا پولیس کے لیے ایک ذاتی کارنامہ کی حیثیت رکھتا ہے ، اور یقینی طور پر پولیس کے لوگ چاہتے ہیں کہ یہ کارنامہ ان کی فہرست اعمال میں لکھا جائے ۔
پونہ کی سیرت کمیٹی نے جب تاریخ کی تبدیلی کا فیصلہ کیا تو اس وقت انھوں نے اس کی خبر مراٹھی اخباروں میں شائع کرادی۔ اس طرح پورے مہاراشٹر کے مسلمانوں کو اس کی اطلاع ہوگئی۔ چنانچہ دوسرے جن مقامات پر دونوں جلوس ایک ہی دن نکلنے والے تھے ، وہاں بھی اس طرح مسلمانوں نے اپنے جلوس کی تاریخ کو بدل دیا۔ اس کے نتیجہ میں پورا مہاراشٹر فساد کے نقصان سے بچ گیا۔
فرقہ وارانہ فساد سے بچنے کی سب سے زیادہ کارگر تد بیر یہی اعراض کا طریقہ ہے۔ جہاں بھی لوگوں نے اس تدبیر کو استعمال کیا ہے، وہاں فساد نہیں ہوا۔ فساد کے بم کو نا کارہ کرنے کی یہی واحد تدبیر ہے ۔ فساد ہمیشہ غصہ کے تحت ہوتا ہے،نہ کہ سازش کے تحت۔