بولنے کی صلاحیت
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سےملاقات ہوئی،وہ دعوت کے کام کو اہم کام سمجھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ مدارس کے علما میں دعوت کا شوق نہیں۔ وہ بس مدرسے کے کام میں لگے رہتے ہیں، اور اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔
ان کی باتیں سن کر مجھے محسوس ہوا کہ ان کے اندر بہت اچھا اسپیکنگ پاور ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ مدارس کے لوگوں کو دیکھ کر منفی احساس میں مبتلا ہورہے ہیں، آپ ایسا کیجیے کہ مدارس کے لوگوں کو لے کر مت سوچیے، بلکہ خود اپنے آپ کو لے کر سوچیے۔ اگر آپ خود اپنے آپ کو لے کر سوچیں تو آپ دریافت کریں گے کہ آپ کو اللہ تعالی نے بہت اچھا اسپیکنگ پاور دیا ہے۔ آپ اپنی اس صلاحیت کو دعوت کے کام میں استعمال کیجیے، اور مجھے یقین ہے کہ سارے شہر میں آپ سے اچھا اسپیکر نہ ہوگا۔
آپ کے اندر بولنے کی فطری صلاحیت بہت اعلیٰ درجے میں موجود ہے۔ اب آپ صرف اتنا کیجیے کہ دعوت کے موضوع پر اپنا مطالعہ بڑھائیے۔ آپ دعوت کے اعتبار سے اپنے آپ کو مزید تیار کیجیے، اور پھر دعوت کے میدان میں کام کرنا شروع کردیجیے۔ میں نے کہا کہ آپ اکیلے ہی، ان شاءاللہ، دعوتی کام کے لیے کافی ہیں۔ آپ اپنے آپ کو لے کر سوچیے، آپ دوسروں کو لے کر سوچنا بند کر دیجیے، اور پھر آپ کو کسی سے شکایت نہ ہوگی۔
لوگوں میں یہ غلطی بہت عام ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنے آپ کو لے کر نہیں سوچتے، بلکہ دوسروں کو لے کر سوچتے ہیں۔ اس طرزِ فکر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر منفی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔اگر وہ مثبت نفسیات میں جینے والے بن جائیںتو خدا کے وعدہ کا مستحق بن سکتے ہیں،جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُم (14:7)۔یعنی، اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ دوں گا۔ لیکن وہ غیر ضروری طور پر اپنے آپ کو اس نعمت سے محروم کرلیتے ہیں۔ شکر میں جینے والا انسان بننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی مثبت سوچ میں جینے والا انسان بنے۔