تعمیر شخصیت کا راز
ہر انسان کامیابی چاہتا ہے، مگر قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کامیابی کا حصول درست طریقے سے ہونا چاہیے، نہ کہ غلط طریقے سے۔ اس سلسلے میں قرآن کا ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے:يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (2:168)۔ یعنی،اے لوگو ! زمین کی چیزوں میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور شیطان کی پیروی مت کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ رزق کے معاملے میں حلال کا طریقہ اختیار کرے۔ یہاں یہ الفاظ محدود طور پر صرف کھانے پینے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ پوری زندگی کے بارے میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان آزاد ہے کہ وہ اپنے لیے کامیابی حاصل کرے، لیکن انسان کو طریقہ (method) کے معاملے میں آزادی نہیں ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ خدا کے مقرر کیے ہوئے صرف حلال اور طیب طریقے کو اختیار کرے۔ اللہ کا حلال اور طیب طریقہ ہے، صبر اور شکر کا طریقہ، جس میں منفی سوچ نہ ہو، اشتعال انگیزی نہ ہو، دوسروں کے ساتھ رواداری کا معاملہ کیا جائے۔ اس کے برعکس، وہ ایسے طریقے کو اختیار نہ کرے جو اللہ کے قائم کردہ حدود کے مطابق غیر حلال اور غیر طیب حیثیت رکھتا ہو۔یعنی بے صبری کا طریقہ۔
مثلاً دوسروں پر ظلم کرکے کامیابی حاصل کرنا، استحصال (exploitation) کا طریقہ اختیار کرکے اپنے کو کامیاب بنانا، جو چیز دوسرے کا حق ہو،اس کو غلط طریقہ اختیارکرکے اپنابنانا، وغیرہ۔حلال طریقے کا مطلب کوئی پر اسرار طریقہ نہیں ہے۔ حلال طریقے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا کی اسکیم آف تھنگس (scheme of things) کو سمجھے، اور اس سے مطابقت کرتے ہوئے زندگی گزارے۔ جو شخص یا قوم خدا کی اسکیم آف تھنگس سے مطابقت کرے گا، وہ کامیاب ہوگا، اور جو اس سے مطابقت نہیں کرے گا، وہ ناکام ہوکر رہے گا۔ اس معاملے میں انسان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ خالق کی اسکیم آف تھنگس کو جانے، اور اس کی کامل مطابقت کرتے ہوئے اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔