اسمائے حسنیٰ
اسمائےحسنیٰ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ خدا کے یہ تمام نام انسان کی نسبت سے خدا کا تعارف ہیں۔ انسان فطری طورپر اپنے سے ایک برتر ہستی کو چاہتا ہے۔ نفسیاتی مطالعے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان پیدائشی طورپر ایک متلاشی (seeker by birth) مخلوق ہے۔ انسان اپنے پورے وجود کے اعتبار سے ایک ذاتِ اعلیٰ کا متلاشی ہے، ایک ایسی اعلیٰ اور برتر ذات جو اُس کی کمیوں کی تلافی کرے، جو اُس کے جذبات اور احساسات کا مرکز و محور بن سکے۔
اسمائے حسنیٰ دراصل اِسی سوال کا جواب ہیں۔ اسمائے حسنیٰ کا مطلب ہے، صفاتِ حسنیٰ۔ خدا کی یہ صفات جو اسمائے حسنیٰ کے ذریعے بتائی گئی ہیں، وہ علی الاطلاق حیثیت سے خدائے برتر کا تعارف نہیں ہیں، بلکہ وہ انسان کی نسبت سے اُس کے مطلوب خدا کا تعارف ہیں۔ چنانچہ جب کوئی انسان اِن اسمائے حسنیٰ کو اُن کی پوری معنویت کے ساتھ جان لیتا ہے تو اچانک اُس کو دریافت ہوتا ہے کہ وہ جس خدائے برتر کی تلاش میں تھا، اُس کا تعارف اُس کو اسمائے حسنیٰ کی صورت میں مل گیا۔
مثال کے طورپر اسمائے حسنیٰ میں سے ایک نام ’الغنیّ‘ ہے۔ غنی کے لفظی معنیٰ بے نیاز کے ہیں، یعنی وہ ہستی جس کو دوسروں سے کچھ لینے کی ضرورت نہ ہو، لیکن اس کو یہ طاقت ہو کہ وہ دوسروں کی تمام حاجتوں کو پورا کرسکے۔ یہ احساس ہر انسان کے اندر، شعوری یا غیرشعوری طورپر، چھپا ہوا ہے۔ اِس کے بعد جب انسان اسمائے حسنیٰ کے ذریعے یہ جانتا ہے کہ خدا کی ایک صفت اُس کا غنی ہونا ہے، تو فوراً ہی وہ جان لیتا ہے کہ وہ جس خدا کی تلاش میں تھا، اُس کو اُس نے یہاں دریافت کرلیا۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن کی اِس آیت میں بتائی گئی ہے:يَاأَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (35:15)۔ یعنی، اے لوگو، تم اللہ کے محتاج ہو، اور اللہ تو بے نیاز ہے، تعریف والا ہے ۔
اِسی طرح ایک اور جذبہ، جو سارے انسانوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر پایا جاتا ہے، وہ یہ کہ ہر انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی مخلوق ہے جو رزق کی محتاج ہے۔ رزق سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں، جن پر انسانی زندگی کا انحصار ہے۔ انسان ہر لمحہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بہت سی چیزوں کا ضرورت مند ہے— پانی غذا، ہوا ، آکسیجن اور روشنی، وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں نہایت متناسب انداز میں اور نہایت وافر طورپر دنیا میں موجود ہیں۔
انسان فطری طورپر یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کون ہے جو اِن تمام ضروری چیزوں کو اُس کے لیے مہیّا کررہا ہے، بغیر اِس کے کہ وہ انسان سے اُس کی کوئی قیمت طلب کررہا ہو۔ انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنے اِس محسنِ اعلیٰ کے احسانات کا اعتراف کرے، وہ کامل اعتراف اور شکر کے جذبے سے اپنے آپ کو اُس کے آگے بچھا دے۔ یہاں اسمائےحسنیٰ میں اُس کو رہ نمائی ملتی ہے۔
خدا کے اِن ناموں میں سے ایک نام ’الرّزّاق‘ ہے۔ انسان جب خدا کو رزّاق کی حیثیت سے دریافت کرتا ہے تو اچانک اُس کو محسوس ہوتا ہے کہ اُس نے اپنی طلب کا جواب پالیا ۔ یہی وہ حقیقت ہے، جس کو قرآن کی اِس آیت میں بیان کیاگیا ہے:إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ(51:58) ۔ یعنی،بے شک، اللہ ہی رزق دینے والا، زور آور، زبردست ہے۔
اِسی طرح ہر انسان کی ایک اور ضرورت ہے۔ موجودہ دنیا جس میں انسان کو زندگی گزارنا ہے، وہ اِس انداز سے بنی ہے کہ کوئی انسان اُس کے اندر معیاری انداز میں نہیں رہ سکتا۔ اِسی طرح انسان کے اندر بہت سی خواہشیں اور تمنائیں ہیں۔ اِن خواہشوں اور تمناؤں کے زیرِ اثر ہر آدمی بار بار غلطیاں کر بیٹھتا ہے۔ اِن حالات میں ہر انسان یہ سوچتا ہے کہ کیسے وہ اپنی غلطیوں کے احساس سے اپنے آپ کو بچائے۔ کس طرح ایسا ہو کہ وہ اپنے آپ کو ایک پاکیزہ روح کا درجہ دے سکے۔ یہاں اسماءحسنیٰ میں وہ اپنے لیے تسکین کا سامان پالیتا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، خدا کا ایک نام ’الغفور‘ہے۔ غفور کے تصور میں انسان پوری طرح اپنے لیے ذہنی تسکین کا سامان پا لیتا ہے۔ قرآن کی یہ آیت اِس معاملے میں انسان کی رہ نما ہے:
قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (39:53)۔ یعنی، کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بے شک، اللہ تمام گناہوں کو معاف کر دیتاہے۔ وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا تمام رحمتوں کا خزانہ ہے اور جس کی رحمتیں ہر وقت ابلتی رہتی ہیں۔ دین یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق کو اس طرح دریافت کرلے کہ اس کی یاد میں اور اس کی شکر گزاری میں اس کے صبح و شام بسر ہونے لگیں۔ اس قسم کی زندگی ہی تمام خوشیوں اور لذتوں کا خزانہ ہے۔اسماء حسنیٰ انسان کو کامل معنوں اپنے خالق کی دریافت کا موقع عطا کرتا ہے۔ اس تجربہ سے اس کے اندر اپنے رب کے شکر کا بےپناہ جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسماء حسنیٰ کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو اللہ کی شکر گزاری کے قابل بناتا ہے اور یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ ان کیفیتوں کو محسوس کرسکے جو اللہ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہیں۔ اسماء حسنیٰ کی اسپرٹ انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ اللہ کی شکر گزاری میں اس کا سینہ تڑپے اور اللہ کے خوف سے اس کے اندر کپکپی پیدا ہو۔ جب آدمی اس نفسیاتی حالت کو پہنچتا ہے، اسی وقت وہ اس قابل بنتا ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر ایسا شکر ادا کرے جس میں اس کے دل کی دھڑکنیں شامل ہوں۔ وہ ایسے تقوی کا تجربہ کرے جو اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ردے۔ وہ اللہ کو ایسے بڑے کی حیثیت سے پائے جس میں اس کا اپنا وجود بالکل چھوٹا ہوگیا ہو۔