منفی تجربہ سے مثبت تجربہ
میں جس روحانی مدرسۂ فکر کو مانتا ہوں وہ روایتی روحانیت سے مختلف ہے ۔ اِس دوسرے مدرسۂ فکر کے مطابق، آدمی کوچاہیے کہ وہ اپنے منفی تجربات کو کنورٹ کرکے ان کو مثبت تجربے کی شکل دے۔ وہ مادّی واقعات کو روحانی تجربے میں تبدیل کرسکے۔ وہ ایک غیر روحانی واقعے کو روحانی واقعے کی صورت دے دے۔
یہ وہی اصول ہے جس پر انسان کے باہر کی پوری مادّی دنیا قائم ہے۔ اِس اصول کو تبدیلی کا اصول(principle of conversion) کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر پانی کیا ہے، دو گیسیں جو اپنے آپ میں پانی نہیں ہیں وہ مل کر ایک اور چیز کی شکل اختیار کرتی ہیں جس کو ہم سیّال پانی کہتے ہیں۔ درخت کیا ہے، درخت در اصل غیر نباتاتی چیزوں کے کنورژن کا نتیجہ ہے۔
اسی کی ایک مثال گائے ہے۔ گائے اپنے جسم میں دودھ نہیں داخل کرتی۔ بلکہ وہ اپنے جسم کے اندر گھاس داخل کرتی ہے۔ پھر مخصوص نظام کے تحت، یہ گھاس کنورٹ ہو کر دودھ بن جاتی ہے۔ گویا کہ گائے ایک ایسی انڈسٹری ہے جو نان مِلک کو مِلک میں تبدیل کرتی ہے۔ اسی حقیقت کو ایک اردو شاعر نے اِس طرح بیان کیا ہے:
کل جو گھاس چری تھی بَن میں دودھ بنی وہ گائے کے تھن میں
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک بزرگ سے ملا۔ وہ کسی بات پر بزرگ سے غصہ ہوگیا۔ بزرگ اُس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ آدمی اٹھا اور اپنے پاؤں سے بزرگ کے سینے پر مار دیا۔ یہ بزرگ کے لیے ایک منفی رد عمل کا واقعہ تھا۔ مگر انھوں نے اِس منفی واقعے کو ایک مثبت تجربے میں تبدیل کیا اور اس آدمی سے کہا میرے آہنی سینے سے تمہارے نرم پاؤں کو چوٹ تو نہیں لگی (واضح ہو کہ یہ ایک قصہ ہے، نہ کہ ایک واقعہ)۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جب کسی بندے کو کوئی تکلیف پہنچے اور وہ اس پر صبر کرلے تو خدا اس کے گوشت کو ایک اور بہترگوشت اور اس کے خون کو ایک اوربہتر خون بنا دیتا ہے (أَبْدَلْتُهُ لَحْمًا خَيْرًا مِنْ لَحْمِهِ، وَدَمًا خَيْرًا مِنْ دَمِهِ) حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصفہانی، جلد7، صفحہ 117۔
یہ تبدیلی فزیکل معنوں میں نہیں ہوتی بلکہ وہ اسپریچول معنوں میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصیبتوں پر صبر وشکر کا رسپانس پیش کرنا آدمی کے لیے ایک روحانی تربیت بن جاتا ہے۔ یہ اس کو منفی سوچ کے بجائے مثبت سوچ والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو دشمنی کرنے والے انسان کے بجائے محبت کرنے والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو پست سطح پر جینے والے انسان کے بجائے اونچی سطح پر جینے والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو دوطرفہ اخلاقیات (bilateral ethics)کے بجائے، یک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) کا حامل بنا دیتا ہے۔