ٹالرنس ، فطرت کا اصو ل
ٹالرنس (ر واداری ، برداشت) فطرت کا ایک یونیورسل اصول ہے۔ شیر اور ہاتھی دونوں انتہائی بڑے جانور ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے حریف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر بھی دونوں ایک ساتھ جنگل میں رہتے ہیں۔ یہ صرف ٹالرنس کے ذریعہ ممکن ہوتا ہے ۔ چنانچہ جنگلوں میں دیکھا گیا ہے کہ ایک طرف سے ہاتھی آرہا ہو اور دوسری طرف سے شیر گزر رہا ہو تو دونوں اپنا اپنا راستہ بدل کر دائیں اور بائیں سے نکل جاتے ہیں۔ اگر دونوں اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ٹالرنس کا معاملہ نہ کریں تو دونوں آپس میں لڑنے لگیں، یہاں تک کہ دونوں لڑ کر تباہ ہو جائیں۔
شیر اور ہاتھی کو یہ طریقہ فطرت نے سکھایا ہے۔ اسی طرح انسان کے جسم میں فطرت نے ٹالرنس کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ میڈیکل سائنس میں اس کو حیاتیاتی ٹالرنس (biological tolerance) کہا جاتا ہے ۔ اس سے مراد ایک جسم حیوانی کی یہ صلاحیت ہے کہ وہ ایک چیز سے برا اثر لیے بغیر اس سے ربط کو یا جسم میں اس چیز کے داخل کیے جانے کو برداشت کرے:
The ability of an organism to endure contact with a substance, or its introduction into the body, without ill effects. (Encyclopedia Britannica X/31)
جسم کی اسی صلاحیت پر امراض کے علاج کا پورانظام قائم ہے ۔ بیماری کے وقت جسم کے اندر ایسی دوائیں ڈالی جاتی ہیں جو مجموعی حیثیت سے جسم کے لیے مضر ہیں۔ مگر جسم خارجی چیزوں کے معاملہ میں اپنی ساری حساسیت کے باوجود ایسی دواؤں کو برداشت کرتا ہے ۔ وہ ان کے ساتھ ٹالرنس کا معاملہ کرتا ہے۔ اسی حیاتیاتی ٹالرنس کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ یہ دوائیں جسم میں داخل ہو کر اپنا اثر دکھائیں۔ وہ جسم کے اعضاء پر برا اثر ڈالے بغیر اس کے بیمار عضو پر عمل کر کے اس کو اچھا کر سکیں۔
ٹالرنس کا یہی طریقہ انسانی سماج میں بھی مطلوب ہے۔ جنگل کے جانور جو کچھ اپنی جبلت (instinct) کے تحت کرتے ہیں، اور انسانی جسم جو کچھ اپنی فطرت کے تحت کرتا ہے۔ وہی انسان کو اپنے شعور کے تحت کرنا ہے۔ اس کو اپنے سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت ٹالرنس کا طریقہ اختیار کر کے دوسروں کے ساتھ زندگی گزارنا ہے ۔
جب بھی زیادہ لوگ ساتھ مل کر زندگی گزاریں گے تو ان کے درمیان شکایت اور اختلاف کے واقعات بھی ضرور پیدا ہوں گے۔ ایسا ایک گھر کے اندر ہو گا، سماج کے اندر ہوگا، پورے ملک میں ہو گا ، اور اسی طرح بین اقوامی زندگی میں بھی ہو گا۔ انسان خواہ جس سطح پر بھی ایک دوسرے سے ملیں اور تعلقات قائم کریں، ان کے درمیان ناخوش گوار واقعات کا پیش آنا بالکل لازمی ہے۔
ایسی حالت میں کیا کیا جائے ، ٹالرنس اسی سوال کا جواب ہے۔ ایسی حالت میں ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے ساتھ رواداری اور برداشت کا معاملہ کرے۔ مل جل کر زندگی گزارنے اور مل جل کر ترقی کرنے کی یہی واحد قابلِ عمل صورت ہے۔ اس اسپرٹ کے بغیر انسانی تمدن کی تعمیر اور اس کی ترقی ممکن نہیں۔
ٹالرنس کوئی انفعالی رویہ نہیں، وہ عین حقیقت پسندی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی کے لیے زیادہ بہتر چوائس (choice)لینے کا موقع تھا اور اس نے پست ہمتی کی بنا پر ایک کمتر چوائس کو اختیار کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کے سوا کوئی اور چوائس ہمارے لیے ممکن ہی نہیں۔ ٹالرنس ہماری ایک عملی ضرورت ہے، نہ کہ کسی قسم کی اخلاقی کمزوری۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک صورت حال کو اپنے لیے نا خوش گوار پا کر اس سے لڑنے لگتا ہے اور بالآخر تبا ہی سے دوچار ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی نے اپنی کوتاہ نظری کی بنا پر یہ سمجھا کہ اس کے لیے انتخاب خوش گوار اور نا خوش گوار کے درمیان ہے۔ وہ ناخوش گوار واقعہ کے خلاف ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرتا ہے،تا کہ خوش گوار کو حاصل کر سکے۔
حالاںکہ نتیجہ نے بتایا کہ اس کے لیے انتخاب خوش گوار اور ناخوش گوار کے درمیان نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے انتخاب ناخوش گوار اور تباہی کے درمیان تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے لیے انتخاب خوش گوار اور ناخوش گوار کے درمیان ہو۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے لیے انتخاب کا موقع کم ناخوش گوار اور زیادہ ناخوش گوار کے درمیان ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں عقل مند ی یہی ہے کہ آدمی زیادہ ناخوش گوار واقعہ سے بچنے کے لیے کم ناخوش گوار واقعہ پر راضی ہو جائے۔
بیشتر انسان اسی غلط فہمی کا شکار ہو کر اپنے کو برباد کرتے رہتے ہیں۔ وہ ایک اقدام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کا اقدام نا پسندیدہ صورت حال کو ہٹا کر پسندیدہ صورت حال کو لانے کے لیے ہے۔ مگر جب موجودہ صورت حال ختم ہو جاتی ہے تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ نئی صورت حال میں و ہی نا خوش گواری زیادہ بڑی مقدار میں موجود ہے جس کی کم مقدار کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے انھوں نے اپنا اقدام کیا تھا۔
ٹالرنس اسی حکمت کا نام ہے۔ اس دنیا میں برداشت کرنا آدمی کو زندگی کی طرف لے جاتا ہے، اور بے برداشت ہو جانا صرف موت کی طرف۔
ٹالرنس کا طریقہ ہم کو فرصتِ عمل دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ہم ناموافق حالات سے ایڈجسٹ کر کے اپنے لیے وہ موقع حاصل کر لیں، جب کہ ہم اپنی زندگی کا سفر معتدل طور پر جاری رکھ سکیں۔ اس کے برعکس، اگر ہم ٹالرنس کو چھوڑ دیں اور جو چیز بھی ہم کو نا موافق نظر آئے اس سے لڑنے لگیں تو اس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ ہم ایک چیز کو’’برائی‘‘ کے نام سے ختم کریں گے ، صرف اس لیے کہ اس کے بعد ایک اور شدید تر برائی میں اپنے آپ کو مبتلا کر لیں۔
شیر اور ہاتھی اگر ایک دوسرے کو گوارانہ کریں تو دونوں اپنی موت کو دعوت دیں گے۔ مگر جب وہ ایک دوسرے کو گوارا کرتے ہیں تو دونوں اپنے لیے زندگی کا موقع پالیتے ہیں۔ یہ ٹالرنس کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ ٹالرنس آپ کو فرصتِ عمل دیتا ہے۔ وہ آپ کو عمل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اور اس دنیا میں بلاشبہ سب سے بڑی چیز فرصتِ عمل ہے۔ فرصتِ عمل سے محرومی ہی کا نام بر بادی ہے۔ اور فرصتِ عمل کو پا کر اس کو استعمال کرنے ہی کا نام کامیابی۔