مثبت لٹریچر کی ضرورت
ایک مدرسہ کے طالب علم نے کراچی بک فیر2019ء میںسی پی ایس انٹرنیشنل (پاکستان) کے اسٹال پر آکر اپنا تاثر ان الفاظ میں نقل کیا ہے:چار سال قبل میں عورتوں کے بارے میں عرب کے دورِ جاہلیت سے بھی بدتر سوچتا تھا۔ میرے بڑے بھائی نے مولانا وحید الدین خاںصاحب کی کتابوں کے مطالعہ پر زور دیا۔ اس وقت میری ذہنی حالت بدتر ہورہی تھی ، میں سوچ سوچ کر اتنا پریشان ہوگیا کہ میں نے خودکشی کرنے کا ارادہ کرلیا۔ ایک دن میں بڑے بھائی کی لائبریری میں گیا، کتابیں دیکھتے ہوئے میری نظر مولانا وحیدالدین خاں کی کتاب ’’انسان کی منزل‘‘ پر پڑی۔ میں نےاس کتاب کا مطالعہ کیا۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے ذہن سےبوجھ اتر گیاہو۔اس کے بعد مجھے مولانا صاحب کی مزید کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس وقت کسی نے مجھے عورت کے بارے میں اسلام کا غلط تصور بتایا کہ اسلام عورتوں کوکمتر درجہ دیتا ہے۔ اب میں عورتوں کے بارے میں اسلام سے کچھ حوالہ چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ انھیں قید کرنے کی اسلام میں مجھے اجازت مل جائے گی۔ میں نے اسی نیت سے مطالعہ شروع کیا۔ لیکن جب میں نے کتاب پڑھی، تو انسانوں کے درمیان مجھے اپنا وجود جنگلی محسوس ہونے لگا۔ پہلے میں سوچتا تھا کہ مرد افضل ہے عورت سے۔ مطالعہ کرنے کے بعد میری سوچ کا پیمانہ بدل گیا۔ میں نے یہ کتابیں پڑھیں— خاتونِ اسلام، عورت معمارِ انسانیت، وغیرہ۔ ان کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے دوسروں کا احتساب کرنے کے بجائے خود کا احتساب شروع کیا۔ گھر میں عورتوں کے ساتھ میں نے غلط رویہ ختم کردیا۔ میرے اندر بدلاؤ آیا تو میں نے اس نظر سے دیکھنا شروع کیا کہ عورت کا بھی درجہ ہے، وہ بھی اللہ کی مخلوق ہے، جیسے کہ مرد۔ اب گھر میں میں عورتوں سے جھگڑا نہیں کرتا ہوں۔ میں اب یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے رب نے دوبارہ زندگی عطا کی ہے۔ (محمود السلام قاسمی، کراچی، 8 دسمبر 2019ء)
اس تاثر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آج کے نوجوان طبقے کی رہنما ئی کے لیے مثبت لٹریچرکی کتنی زیادہ ضرورت ہے۔