مسائل پر صبر

 ایک بستی تھی ۔ وہاں کے لوگ بہت تیز زبان تھے ۔ وہاں دو آدمیوں نے دکان کھولی ۔ ایک نوجوان تھا اور دوسرا بوڑھا ۔ نوجوان کی دکان جلدہی ختم ہوگئی ۔بوڑھے کی دکان چلتی رہی۔ آج وہ اس بستی میں سب سے بڑا دولت مند بنا ہوا ہے ۔ اب ہر آدمی اس سے ادب کے ساتھ بات کرتا ہے۔

 اس کی وجہ یہ تھی کہ نوجوان دکان دار نے جب دیکھا کہ جو گاہک آتا ہے وہ تیز زبان میں بات کرتا ہے تو اس نے لوگوں کی تیز کلامی کے خلاف جنگ شروع کر دی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے خلاف لوگوں کی تیز کلامی تیز دستی تک پہنچ گئی۔ لوگوں نے اس کو پکڑ کر مارا، یہاں تک کہ وہ دکان بند کر کے وہاں سے بھاگ گیا ۔

 بوڑھے دکان دار کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ اس نے لوگوں کی تیز زبان اور درشت کلام کو نظر انداز کیا ۔ اس نے اپنی نظر صرف لوگوں کی جیب پر رکھی ، اور لوگوں کی زبان سے اپنی نظر ہٹالی۔ اسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ اس نے اپنی دکان داری میں شاندار کامیابی حاصل کی ۔

 یہ دنیا کی کامیابی کا واقعہ ہے ۔ آخرت کی کامیابی کا اصول بھی یہی ہے ۔ آخرت کی کامیابی کے لیے بھی اسی طرح لوگوں کی زیادتیوں پر صبر کر نا پڑ تا ہے ۔ جو شخص دنیا میں صبر کا طریقہ اختیار نہ کرے، اس کے لیے آخرت کی ’’تجارت‘‘ کو کامیاب بنانا ممکن نہیں۔

 آخرت کی کامیابی کے لیے اہل ایمان کو جو فرض سونپا گیا ہے ، وہ دعوت الی اللہ ہے ۔ اسی فرض کی انجام دہی پر ان کو وہ کامیابی ملنے والی ہے جس کو آخرت کی جنت کہا گیا ہے ۔ نیز جب اہل ایمان یہ خدائی ذمہ داری ادا کرتے ہیں تو ابتدائی انعام کے طور پر انھیں دنیا میں بھی سربلندی دے دی جاتی ہے ۔ لیکن اگر وہ صبر پر قائم نہ ہو سکیں تو وہ دنیا میں بھی محروم رہتے ہیں اور آخرت میں بھی۔

 موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا کیس ، ایک لفظ میں ، یہ ہے کہ جن باتوں پر انھیں صبر کر نا تھا ان پر وہ لڑرہے ہیں، اور اس کو غلط طور پر جہاد کہتے ہیں۔ اس دنیا میں لازماً ایسا ہو گا کہ مسلمانوں کو دوسروں کی طرف سے زیادتیوں کا تجربہ ہوگا۔ اہل ایمان کو لازماً ایسا کرنا ہے کہ وہ مسائل سے اپنی نظریں ہٹا لیں اور اپنی ساری توجہ صرف فرض کی ادائیگی پر لگا دیں ۔

بے صبری نہیں

میں نے اپنی پوری زندگی مطالعہ میں گزاری ہے۔میں نے جب انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا تو مجھے سمجھ میں آیا کہ وہی انسان کامیاب ہوسکتاہے، جو مستقل مزاج ہو۔ لیکن جس کے اندر گراس ہاپر (grasshopper) والا مزاج ہو، یعنی جو مستقل مزاجی کے ساتھ کسی ایک چیز پر ٹک کر نہیں رہتا ہو، وہ ہر میدان میں ناکام ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مستقل مزاجی سے انسان کو کامیابی ملتی ہے۔ کیوں کہ فطری قانون کے مطابق، اس د نیا میں کامیابی چند لمحوں کی محنت سے حاصل نہیں ہوتی، اس کے لیے صبر کے ساتھ لگاتار کوشش کرنا پڑتا ہے۔برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ونسٹن چرچل ( 1874-1965) کا ایک قول ہے— مستقل کوشش، نہ کہ قوت یا عقل، ہمارے پوٹنشل کو ایکچول بنانے کی چابی ہے:

Continuous effort, not strength or intelligence,  is the key to unlocking our potential.

 یہ صرف دنیوی امور کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ دینی امور میں بھی یہی مستقل کوشش پسندیدہ ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیاکہ کون سا عمل اللہ کو سب سے محبوب ہے (أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ؟ )، آپ نے کہا کہ جو مسلسل کیا جائے اگرچہ کم ہو:أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلّ( صحیح مسلم، حدیث نمبر 782)۔

 اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کسی چیزکو پانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ صرف آپ کا معاملہ نہیں ہوتا ، بلکہ اس میں دوسری چیزوں کو مینج کرنے کا معاملہ بھی شامل ہوجاتا ہے، خواہ وہ دوسرے انسانوں کا معاملہ ہو یا کوئی اور چیز۔ اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان تمام چیزوں کو مینج کرتے ہوئے انسان کی کوشش کا نتیجہ ظاہر کرتاہے۔ اس لیے انسان کو اس کی کوشش کا نتیجہ فوراً نہیں مل پاتا ، اس کو مسلسل کوشش کرنا پڑتا ہے۔ اس کو جلد بازی کے بجائے تدریج کے ذریعہ اپنا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom