ایم فیکٹر، کیو فیکٹر
دہلی کے ایک مسلم نوجوان ایک انگریزی میگزین میں کام کرتے تھے۔ اِس میگزین کے مالکان سب ہندو تھے۔ چند سال کے بعد منتظمین کی طرف سے مذکورہ مسلم نوجوان سے کہاگیا کہ آپ استعفیٰ دے دیں۔ چوں کہ یہ اندیشہ تھا کہ اگر وہ استعفیٰ نہ دیں تو اُن کو برخاست کردیا جائے گا۔ اِس لیے انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔
اِس کے بعد مذکورہ مسلم نوجوان سے میری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ میرے ساتھی کہتے ہیں کہ اِس کا سبب ایم فیکٹر (M-factor) ہے۔ میں نے کہا کہ ہر گز نہیں، اِس کا سبب صرف کیو فیکٹر(Q-factor)ہے، یعنی مسلم فیکٹر نہیں، بلکہ کوالٹی فیکٹر۔ میں نے کہا کہ آپ اپنے دل سے منفی خیال مکمل طورپر نکال دیں اور آپ صرف ایک کام کریں، وہ ہے اپنی انگلش رائٹنگ کو امپروو (improve) کرنا۔
میرے مشورے سے انھوں نے بر ٹش کاؤنسل میں داخلہ لے لیا۔ وہاں انھوں نے ایک سال اپنی زبان کو امپروو کرنے کی کوشش کی۔ برٹش کاؤنسل سے ایک سال کا کورس پورا کرنے کے بعد ان کی زبان پہلے سے بہتر ہوچکی تھی۔ اِس کے بعد انھوں نے ایک اور انگریزی میگزین میں انٹرویو دیا۔ وہاں ان کا سلیکشن ہوگیا۔ اب وہ اِس دوسرے انگریزی میگزین میں کام کررہے ہیں۔ یہاں ان کو پہلے سے تقریباً تین گنا زیادہ تنخواہ ملتی ہے، جب کہ اِس دوسرے میگزین کے مالکان بھی ہندو ہیں۔
اِس مثال سے زندگی کی ایک حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ اکثر لوگوں کا یہ طریقہ ہے کہ جب وہ کسی ناپسندیدہ صورت ِحال سے دوچار ہوتے ہیں تو وہ یہ کرتے ہیںکہ اس کو فوراً تعصب (bias) کا معاملہ سمجھ کر اس کی ذمے داری دوسرے کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ تعصب کا لفظ صرف ڈکشنری میں پایا جاتا ہے، حقیقی زندگی میں اس کا کوئی وجود نہیں۔
جب بھی آپ کو دوسروں کی طرف سے کوئی ناخوش گوار تجربہ پیش آئے تو سمجھ لیجیے کہ وہ خود آپ کی کسی کمی کی بنا پر پیش آیا ہے۔ اپنی کمی کو دریافت کرکے اس کو دور کیجیے اور پھر آپ کی شکایت اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔