حکمت اور صبر
موجودہ دنیا میں کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے حکمت اور صبر لازمی طور پر ضروری ہیں۔ حکمت اور صبر کے بغیر نہ دین کا کوئی مقصد حاصل کیا جا سکتا اور نہ دنیا کا ۔
حکمت کی جڑ یہ ہے کہ آدمی ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو جانے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ہر قسم کے ظلم کے باوجود ظالموں سے نہیں لڑے ۔ مگر مدینہ میں حسب ضرورت آپ نے ظالموں کا مقابلہ کیا ۔ غزوۂ حمراء الاسد کا سفر بآواز بلند کیا گیا۔ مگر فتح ِمکہ کے سفر میں آپ نے بلند آوازی سے منع فرما دیا ۔ معاہدۂ حدیبیہ کے وقت آپ نے مکہ والوں کی یک طرفہ شرائط پر صلح کر لی۔ مگر بنو بکر اور بنو خزاعہ کا واقعہ پیش آنے کے بعد آپ نے مکہ کے سردار(ابوسفیان) کی تجدید صلح کی پیش کش کو قبول نہیں فرمایا، وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں کبھی بولنا ضروری ہوتا ہے اور کبھی یہ ضروری ہوتا ہے کہ آدمی اپنے منہ میں زبان رکھتے ہوئے چپ ہو جائے ۔ کبھی حالات اقدام کرنے کا تقاضا کرتے ہیں اور کبھی اقدام نہ کرنے کا۔ کبھی آگے بڑھنا افضل ہوتا ہے اور کبھی یہ افضل ہوتا ہے کہ آدمی پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے اپنے آپ کو راضی کرلے ۔ اسی فرق کو جاننے کا نام حکمت ہے۔
صبر کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی رد عمل سے رکے اور غیر متاثر ذہن کے تحت سوچ سمجھ کر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ آپ سڑک پر اپنی گاڑی دوڑار ہے ہیں اور سامنے اچانک دوسری گاڑی آگئی۔ اب گاڑی کو روک کر اپنے لیے راستہ نکالنے کا نام صبر ہے، اور رو کے بغیر گاڑی دوڑانے کا نام بے صبری ۔
صبر کا طریقہ موجودہ دنیا میں کوئی حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لیے انتہائی حد تک ضروری ہے ۔ جو ڈرائیور بے صبری کے ساتھ سڑک پر گاڑی چلائے، وہ خود بھی تباہ ہوگا اور اپنی گاڑی کو بھی تباہ کرے گا۔ اسی طرح جو لوگ صبر کی شرط کو پورا کیے بغیر زندگی میں کامیاب ہونا چاہیں، وہ صرف بر بادی کی تاریخ بنائیں گے، ترقی اور کامیابی کی تاریخ بنانا ان کے لیے مقدر نہیں ۔