سوال و جواب
سوال
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملا قات ہوئی۔انہوں نے کہا کہ میں الرسالہ سے پورا اتفاق رکھتا ہوں۔مگر ایک چیز سے میں ابھی تک پورا اتفاق نہ کر سکا۔
وہ یہ کہ الرسالہ میں مثبت انداز میں کام کرنے کو کہا جاتا ہے، مگر خود الرسالہ میں تنقیدی اُسلوب پایا جاتا ہے۔ حالاں کہ تنقید کا اُسلوب منفی اُسلوب ہے۔ مزید یہ کہ الرسالہ کی تنقید یک طرفہ تنقید ہوتی ہے۔ اِس میں زیر تنقید شخص کے مثبت پہلو کو عام طور پر بیان نہیں کیا جاتا۔(ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
ماہ نامہ الرسالہ میں کبھی یہ نہیں لکھا گیا کہ تنقیدی اُسلوب درست نہیں۔ الرسالہ میں جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ صرف منفی اُسلوب کے بارے میں ہے، نہ کہ تنقیدی اُسلوب کے بارے میں۔ منفی اُسلوب میں دو قسم کی چیزیں شامل ہیں، شکایتی اُسلوب اور عیب زنی کا اُسلوب۔یہ دونوں چیزیں بلا شبہ حرام کے درجے میں قابلِ ترک ہیں۔
جہاں تک تنقیدی اُسلوب کی بات ہے، وہ سرے سے قابلِ اعتراض ہی نہیں۔ تنقید کے بغیر کبھی ذہنی ترقی نہیں ہو سکتی۔ تاہم تنقید سے مراد تنقیص نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد علمی تجزیہ ہے۔ اور علمی تجزیہ ہمیشہ نہایت مفید ہوتا ہے۔الرسالہ میں جو تنقید ہوتی ہے، وہ ہمیشہ علمی تجزیہ کے معنی میں ہوتی ہے، نہ کہ شکایتی اُسلوب اور عیب زنی کے اُسلوب کے معنی میں۔
اصل یہ ہے کہ لوگوں نے خود ساختہ طور پر بعض شخصیتوں کو اکابر کا درجہ دے رکھا ہے۔ اِس لیے جب اُن کے مفروضہ اکابر پر تنقید کی جائےتو اِس سے اُنھیں تکلیف پہنچتی ہے۔ مگر ملت کے افراد کو اصاغر اور اکابر میں تقسیم کرنا بجائے خود ایک بدعت ہے، اور بدعت کو حدیث میں ضلالت کہا گیا ہے(مسند احمد، حدیث نمبر17144)۔
اُسلوبِ کلام کے دو طریقے ہیں۔ ایک اصلاحی اُسلوب، اور دوسرا قانونی اُسلوب۔ دونوں کے تقاضے الگ الگ ہیں۔ اِس لیے دونوں کا انداز یکساں نہیں ہو سکتا۔
اصلاحی اُسلوب کا مقصد کسی شخص یا اشخاص کی اصلاح ہوتا ہے۔ اِس لیے حکمت کا تقاضا ہوتا ہے کہ سارا زور کمی والے پہلو پر دیا جائے، تاکہ آدمی کا ذہن اُس کو پکڑ سکے۔ اصلاحی اُسلوب میں اگر ’’عیب مے جملہ بہ گفتی، ہنرش نیز بگو‘‘(تم نے تمام عیب بیان کردیے، اب اس کی خوبی بھی بیان کر دو)کا طریقہ اختیار کیا جائے، تو کلام بے اثر ہو کر رہ جائے گا۔
مثلاً حضرت عائشہ سےایک بار بتایا گیا کہ ابو ہریرہ فلاں حدیث بیان کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے کہا :كَذَبَ أَبُو هُرَيْرَةَ(ابو ہریرہ نے جھوٹ کہا)۔ حضرت عائشہ نے یہ انداز اختیار نہیں کیا کہ — پہلے وہ حضرت ابو ہریرہ کے تمام کارنامے بیان کریںاور اس کے بعد یہ کہیں کہ صرف ایک حدیث کے بیان میں ابو ہریرہ سے غلطی ہو گئی ہے۔
اِس قسم کا’’متوازن‘‘طریقہ رسول نے یا اصحابِ رسول نے کبھی اختیار نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس قسم کا طریقہ متوازن طریقہ نہیں ہے، بلکہ وہ غیر مفید طریقہ ہے۔
واضح رہے کہ قانونی اُسلوب میںمختلف پہلوؤں کا احاطہ مقصود ہوتا ہے۔ لیکن اصلاحی اُسلوب یہ ہے کہ دوسرے تمام پہلوؤں کو چھوڑ کر صرف اُس پہلو کو بیان کیا جائےجو موقع کی نسبت سے مطلوب ہے۔ یہی اصلاح یا دعوت کا صحیح اُسلوب ہے، اور یہی وہ اُسلوب ہے جس سے حقیقی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔
سوال
میں دعوتی کام کرتا ہوں۔ مگر دعوتی کام کے دوران میں نے پایا ہے کہ کچھ لوگ لمبی لمبی بحثیں کرتے ہیں۔ میں اُن کو بہت زیادہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، مگر وہ مطمئن نہیں ہوتے۔ ایسی حالت میں مجھ کو کیا کرنا چاہیے؟(ایک قاری الرسالہ، حیدر آباد)
جواب
اصل یہ ہے کہ جب آپ ایک شخص سے براہ راست گفتگو کریں تو اس میں آپ اور دوسرا شخص دونوں آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ گفتگو کے دوران ایگو پرابلم (ego problem)پیدا ہو جاتا ہے۔
شعوری یا غیر شعوری طور پریہ احساس جاگ اُٹھتا ہے کہ میں دوسرے کی بات کیوں مانوں۔اگر میں نے دوسرے کی بات مانی تو میں اُس کے مقابلے میں چھوٹا ہو جاؤں گا۔اِس لیے دعوت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب تک آپ دیکھیں کہ گفتگو سنجیدہ انداز میں ہو رہی ہے، تو آپ اپنی گفتگو جاری رکھیں، ورنہ آپ اُس کو مطالعے کے لیےکوئی کتاب پیش کر دیں۔ آدمی جب کتاب پڑھتا ہے، تو ایک طرف وہ خود ہوتا ہےاور دوسری طرف صرف ایک کتاب، نہ کہ اُس کےجیسا کوئی انسان۔
اِس لیے کتاب کے مطالعے میں ایگو پرابلم نہیں ہوتا۔آدمی کھلے ذہن کے تحت پڑھتا ہے اور کھلے ذہن کے تحت اس کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس طریقے کا نام حکمتِ دعوت ہے، اور حکمت کے بغیر دعوت کا کام مؤ ثر طور پر نہیں ہو سکتا۔
سوال
میں آپ کے قول و فکر سے بہت متاثر رہا ہوں ۔ یہ اس بنا پر کہ میں نے آپ کی تحریر کی ہوئی باتیں آپ کے ماہنامہ الرسالہ میں پڑھی ہیں ۔ میں نے آپ کی بتائی ہوئی اچھی باتیں دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میں نے پایا کے میرے اطراف کے لوگوں میں کچھ لوگ آپ کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے ۔
جب میں نے ان سے وجہ دریافت کی تو وہ مجھے کوئی قابلِ قبول وجہ نہیں بتا سکے۔یہ لوگ صرف سنی سنائی باتوں کاذکر کرتے ہیں ۔ میں ان سے کہتا رہا ہوں کہ وہ خود اپنا کوئی ذاتی تجربہ یا مشاہدہ بتائیں تو وہ بتانے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس طرح میں ان کو نظر انداز کر کے خاموشی سے تعمیری سوچ اور کام میں لگا ہوا ہوں۔میرا ایک مشاہدہ آپ کے بارے میں ایسا ہوا ہے جو میری سمجھ سے غیر مناسب ہے اور آپ جیسی شخصیت سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔
کل کے اخبار (The Hindu, Aug.7, 2009) سے معلوم ہوا کہ آپ نے اڈوانی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب ’’میرا وطن میری زندگی‘‘کے Release Function میں شامل ہیں۔ ایک طرح سے یہ اُس شخصیت کا endorsement ہے جس کی لکھی ہوئی یہ کتاب ہے۔ اس مصنف کی جو قدریں (values) ہیں، وہ اس کے قول اور اُس سے زیادہ اس کے عمل اور کردار سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اس بارے میں زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
میرا تجربہ ہے اور دانش مندوں کی کہاوت ہے کہ خود غرض اور ظالم کی دوستی فائدہ مند نہیںہوتی، خواہ وہ ظالم آپ پر مہربان ہو۔ ایسے لوگوں کے دعوت نامہ کو قبول کرنے سے پہلے اچھی طرح غور کرنا چاہیے۔ اگر کسی وجہ سے ایسی دعوت قبول کرنا بھی پڑے تو ایسے موقع پر اپنی بات پوری وضاحت اور مضبوطی سے کہنا چاہیے۔ تا کہ negative values کا endorsment نہ ہونے پائے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملہ میں آپ وضاحت کریں اور میری غلط فہمی دور کریں۔(ایم اے صدیقی، کان پور)
جواب
اصل یہ ہے کہ کسی واقعہ کو دیکھنے کے دو زاویے (angles) ہوتے ہیں۔ ایک مثبت زاویہ اور دوسرا منفی زاویہ۔ ایک واقعہ مثبت زاویہ سے دیکھنے میں صحیح واقعہ نظر آئے گا ۔ اسی واقعہ کو دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو وہ منفی واقعہ بن جائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صلح حدیبیہ پیش آیا ۔ اس وقت ایک صحابی حضرت عمر فاروق نے منفی زاویہ سے دیکھا تو ان کو وہ پسپائی کا ایک واقعہ نظر آیا۔ انھوں نے کہا کہ لمَ نعطِي الدَّنيَّة في دِيننا (مسند احمد،حدیث نمبر18928)۔اس کے بر عکس، اللہ نے اس کو مثبت زاویہ سے دیکھا اور قرآن میں اعلان کیا کہ یہ فتح مبین ہے (48:1)۔آپ کی غلط فہمی یہ ہے کہ آپ نے مذکورہ اجتماع میں میری شرکت کو دوستی کے زاویہ سے دیکھا اور اس کو صاحب کتاب کا endorsement سمجھ لیا۔
آپ کے لیے صحیح یہ تھا کہ آپ اس کو دعوت کے زاویہ سے دیکھتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ مذکورہ اجتماع میں میری شرکت ایک صحیح اور باعثِ ثواب معاملہ تھا ۔ جو شخص بھی ماہ نامہ الرسالہ اور اس کا خبر نامہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھے تو اس کو معلوم ہو گا کہ مذکورہ واقعہ کوئی استثنائی واقعہ نہ تھا، بلکہ وہ بہت سے واقعات میں سے صرف ایک واقعہ تھا۔
میں اور میرے ساتھی دعوت الی اللہ کا مشن چلا رہے ہیں ۔ یہ مشن ایک مبنی بر لٹریچر مشن ہے۔ ہم مسلسل یہ کر رہےہیں کہ انڈیا کے اندر اور انڈیا کے باہر ہونے والے اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں ۔ وہاں ہم لوگوں کے درمیان اسلامی لٹریچر تقسیم کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہم ہر مذہب اور ہر گروہ اور ہر پارٹی کے اجتماعات میں جاتے ہیں ۔ اگر ہم آپ کے بیان کردہ زاویے سے چیزوں کو دیکھیں تو ہم دعوت کے مواقع (opportunities) کو استعمال نہ کر سکیں گے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں گناہ گار ثابت ہوں گے۔
ہمارا یہ طریقہ پیغمبر کے سنت کے عین مطابق ہے۔ حضرت یوسف نے قدیم مصر میں وہاں کے بادشاہ کے ایڈمنسٹریشن میں ایک ذمہ دار انہ عہدہ قبول کیا، حالاں کہ یہ بادشاہ ایک مشرک بادشاہ تھا۔حضرت یوسف اگر اس معاملہ کو (شرک) کے زاویے سے دیکھتے، تو بادشاہ کے ایڈمنسٹریشن (administration) میں شرکت نہ کرتے۔ مگر آپ نے اس کو اپنے دعوتی مشن کی حیثیت سے دیکھا اور قبول کر لیا۔
اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کے ابتدائی زمانہ میں 13 سال تک مکہ میں تھے ۔ وہاں آپ کعبہ میں جاتے اور نماز ادا فرماتے اور لوگوں کو دعوت پہنچاتے ، حالاں کہ اس زمانے میں کعبہ کی عمارت میں کھلے طور پر 360 بت رکھے ہوئے تھے ۔ اگر اس واقعہ کو منفی زاویہ سے دیکھا جائے تو وہ شرک کا انڈورسمینٹ نظر آئے گا ۔ لیکن رسول اللہ نے اس کو دعوت کے زاویے سے دیکھا۔
آپ نے یہ فارمولا اختیار کیا کہ — بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرو اور وہاں موجود لوگوں میں اپنا پیغام پہنچائو۔
ہم نے اپنے دعوتی مشن میں اسی پیغمبرانہ طریقہ کو اختیار کیا ہے ۔ ہم لوگوں کو دشمن اور دوست کے اعتبار سے نہیں دیکھتے ۔ ہم ہر انسان کو صرف انسان کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ ہر عورت اور ہر مرد کو ہم حق کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے ہم ہر اجتماعی موقع پر جاتے ہیں۔ ہمارے پاس قرآن کا ترجمہ اور دوسری اسلامی کتابیں ہوتی ہیںان کو ہم ایک ایک شخص تک پہنچاتے ہیں ۔ مذکورہ اجتماع میں پورے انڈیا کے تقریباًتمام ٹاپ کے کٹر ہندو لیڈر موجود تھے ۔ ہمارے ساتھیوں نے بڑے پیمانے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر اُن لوگوں کو مطالعے کے لیے دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا(لوگ اس کے دشمن ہوتے ہیں جس کو وہ نہیں جانتے)کی مثال ہے۔ جو لوگ دعوت کے فرض سے غافل ہیں ، جو یہ نہیں سمجھتے کہ مسلمان کا دوسرے انسانوں سے تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہے، وہ اس معاملے میں غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں ۔ وہ انسانوں کو دوست اور دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ وہ کسی کو اپنا اور کسی کو غیر سمجھتے ہیں۔وہ کسی سے محبت کرتے ہیں اور کسی سے نفرت۔ ایسے لوگ ایک داعی کی پوزیشن کو سمجھ نہیں پاتے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ ہمارے بارے میں کسی انگریزی یا ہندی اخبار میں ایک خبر پڑھ کر رائے نہ بنائیں بلکہ خود ہماری تحریروں کو پڑھ کر ہمارے بارے میں رائے بنائیں۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو کبھی مذکورہ قسم کی غلط فہمی نہیں ہوگی۔
سوال
مولانا صاحب ، میں نے آپ کی آن لائن کافی تقریریں سنی ہیں۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں ، ہم اپنی اصلاح کا سفر کہاں سے شروع کریں ۔ پاکستان کے حالات میں آپ ہماری اصلاح کے لیے کیا رہنمائی تجویز فرمائیں گے۔ (بشریٰ عامر، پاکستان)
جواب
سب سے پہلے آپ یہ کیجیے کہ اپنے اندر مکمل معنوں میں مثبت ذہن کی تعمیر کریں، ایک ایسا ذہن جو منفی سوچ سے پوری طرح خالی ہو۔
اِس کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ آپ افراد کی سطح پر دوسروں میں بھی مثبت سوچ والے انسان بنانے کی کوشش کریں، اور جب آپ کو ایسے کچھ ساتھی مل جائیں تو ہفتے وار اجتماع کی شکل میں اُن کو منظّم کرنے کی کوشش کریں۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ حقیقت پسند (realist)بنیں، رومانی تصورات میں جینے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ آپ امت کے ماضی کی عظمت کے خول سے مکمل طور پر باہر آ جائیں، ورنہ آپ کے لیے کبھی بھی اپنی اصلاح ممکن نہ ہو گی۔
سوال
کہا جاتا ہے کہ امریکا اور افغانستان کی جنگ میں امریکا ناکام ہو گیا اور افغانستان جیت گیا ۔وہ اس طرح کہ اگر دو فریقوں کی جنگ میں ایک فریق کے لیے جنگ منفی نتائج کا سبب ہوتی ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ دوسرے فریق کے لیے وہ جنگ یقینی طور پر مثبت نتائج کا سبب بن رہی ہے۔
یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر کے اِس بیان کی روشنی میں کہی جاتی ہے کہ امریکا جو کچھ افغانستان میں کر رہا ہے، وہ سب اُس کے لیے الٹے نتیجوں کا ہی سبب بن رہا ہے۔
براہِ کرم ، اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں۔(عبدالباسط عمری، قطر )
جواب
افغان جنگ کے بارے میں امریکی افسر نے جو بات کہی، وہ صرف ایک جنگی تبصرہ ہے، اِس سے وہ نتیجہ ہر گز نہیں نکلتا جو مذکورہ قسم کے لوگ اُس سے نکال رہے ہیں۔ کوئی بھی منفی تبصرہ ، مثبت نتیجے کا سبب نہیں بن سکتا ۔
امریکا نے جب عراق اور افغانستان پر ہوائی حملے کیے ، تو اس کا مقصد اصلاً القاعدہ کا زور توڑنا تھا، اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت (2011ء) کے بعد یہ مقصد ایک حد تک حاصل ہو چکا ہے۔ لیکن امریکی قائدین کو غالباً اِس کا اندازہ نہ تھا کہ اُن کے اقدام سے القاعدہ کی طاقت تو کمزور ہو سکتی ہے، لیکن اس اقدام کے ردعمل میں امریکا کے خلاف مسلمانوں میں جو نفرت پیدا ہو گی ، اس کا کوئی توڑ ممکن نہ ہو گا۔
امریکی افسر نے جو کچھ کہا وہ صرف امریکی قائدین کے غلط اندازے کو بتاتا ہے۔ اُس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اِس جنگ میںا فغانستان کی جیت ہوئی ہے، واقعات بتاتے ہیں کہ افغانستان کی اقتصادی طاقت بالکل تباہ ہو گئی ہے۔ افغانستان کی تعمیر و ترقی کا کام بالکل رکا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ افغانی لوگوں میں آپس کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ یہ واقعات افغانستان کی تباہی کو بتاتے ہیں، نہ کہ اس کی جیت یا کامیابی کو۔اِس معاملے میں جہاں تک اسلامی نقطۂ نظر کا تعلق ہے، اسلام میں وہی اقدام مثبت اقدام ہے جو مثبت نتیجہ بر آمد کرنے والا ہو۔فریقِ ثانی کے نقصان پر خوش ہونا اسلام کا طریقہ نہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق، قابلِ لحاظ بات یہ نہیں ہے کہ اِس جنگ میں امریکا کو کچھ نقصان پہنچا، اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ افغانستان بدستور پچھڑا ہوا ایک ملک ہے، وہ تعمیر و ترقی کے راستے میں آگے نہ بڑھ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اب بھی بدستور اپنے بیٹوں کوامریکا بھیج رہے ہیں، کوئی بھی شخص اپنے بیٹوں کو افغانستان بھیجنے کے لیے تیار نہیں۔
سوال
آپ نے کشمیر کی نسبت سے کافی لکھا ہے ۔ یہ کشمیریوں کے ساتھ آپ کی خیر خواہی کی دلیل ہے۔ آپ نے’’کشمیرمیںامن‘‘ (Peace in Kashmir) اور’’صبحِ کشمیر‘‘ (The Dawn over Kashmir) نام کی کتابوں کو تحریر کر کے کشمیریوں کو صحیح رہنمائی دی ہے۔ ایک اگرhistorical document ہے تو دوسری ideological document ہے۔ دونوں تحریروں میں تاریخ اور مذہب کی حقیقی تصویر پیش کی گئی ہے۔
میں کشمیر کے gun culture میں جوان ہوا ، لہٰذا میں کشمیر کے صوفی کلچر سے عملاً بےخبر ہوں ۔ البتہ میرے والد بتاتے ہیں کہ ’’میں جب اپنے بچپن کو یاد کرتا ہوں تو کشمیر کی موجودہ صورت حال مجھے ایک خواب نظر آتی ہے۔ جب گاؤں میں ہمارا کوئی مہمان آتا تھا تو اس کی تواضع کے لیے ہم مرغ ذبح کرتے تھے، لیکن مرغ ذبح کرنے کے لیے ہمیں مشکل ہی سے کوئی آدمی ملتا تھا ۔ اکثر لوگوں کے پاس چاقو تک نہ ہوتا تھا۔ لوگ جانور کو مارنے سے کتراتے تھے، کسی انسان کو تکلیف دینے کو تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘‘۔
ایک روز میں نے کیڑے مار دوا چھڑکی ۔ صبح کو میرے والد نے مجھے بلایا ۔ مرے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا— یہ قتل ہے۔
میں اِس رحم دلی کے مزاج کو یاد کر کے آج روتا ہوں ۔ یہ ایک شخص کی کہانی نہیں ، بلکہ یہی کشمیریوں کی فطرت تھی جس کو عرف عام میں ہم ’’کشمیریت‘‘سے یاد کرتے ہیں۔
جہاں تک میں نے آپ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے ، کشمیر کی نسبت سے آپ کا مشن کشمیر کو دوبارہ اپنی فطری حالت پر لانا ہے، تا کہ ہم دنیا کو امن و سلامتی (اسلام) کا پیغام دے سکیں۔ برائے مہربانی مزید رہنمائی سے نوازیں۔(انجینئرسید عابد حسین، بڈگام، کشمیر)
جواب
کشمیر کا مسئلہ ہو یا اس قسم کے دوسرے مسائل ، ہر ایک کا سبب صرف ایک ہے، وہ یہ کہ لوگ محدود طور پر صرف اُس مسئلے کو لے کر سوچتے ہیں جس سے وہ عملاً دوچار ہیں۔ وہ اُن مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتے۔ یہ اوپر اٹھ کر سوچنا ۔وہی چیز ہے جس کو قرآن میں خلقِ عظیم (68:4) کہا گیا ہے۔ خلق عظیم کا لفظی مطلب ہے بر تر کردار ، لیکن بر تر کردار بر تر آئڈیالوجی سے پیدا ہوتا ہے۔بر تر آئڈیالوجی نہیں تو بر تر کردار بھی نہیں۔
مومن کے لیے بر تر آئڈیالوجی صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی دوسری چیزوں کو لے کر سوچنے کے بجائے اللہ رب العالمین کو لے کر سوچے ۔ اس کے اندر خدا رخی سوچ (God oriented thinking ) آ جائے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اندر خدا رخی سوچ نہیں ، وہ صرف اپنے معاشی اور سیاسی مسائل کو جانتے ہیں۔
ان کی موجودہ سوچ اسی بنیاد پر بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان اللہ کی نصرت سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان کے پاس صرف شکایت کی زبان ہے، ان کے پاس شکر کی زبان نہیں۔
موجودہ زمانے میں عالمی سطح پر مسلمانوں کے دو بڑے مسئلے ہیں:کشمیر کا مسئلہ اور فلسطین کا مسئلہ ۔ غیر معمولی قربانیوں کے باوجود یہ دونوں مسئلے عملاً لا ینحل مسئلے بنے ہوئے ہیں۔ اِن دونوں مسائل کا حل اگر موجودہ قسم کی کوششوں سے ممکن ہوتا تو اب تک وہ ہو چکا ہوتا۔ لیکن 60سال سے زیادہ مدت کی غیر معمولی کوششوں کے باوجود یہ دونوں مسئلے کسی بھی درجے میں حل نہیں ہوئے۔
ایسی حالت میں کشمیریوں اور عربوں دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں ۔ اس کے سوا، ہر دوسری تدبیر صرف نقصان میں اضافہ کرے گی ، وہ کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرنے والی نہیں۔
کشمیر کے مسلمان اب تک دو چیزوں کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے تھے، آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر۔ مگر یہ دونوں نشانے قومی سوچ پر بنے ہیں ، نہ کہ خدائی سوچ پر۔ صحیح یہ ہے کہ کشمیر کے مسلمان اپنی سوچ پر نظر ثانی کریں اور یہ کہیں کہ ہمارا نشانہ نہ آزاد کشمیر ہے اور نہ پاکستانی کشمیر ،ہمارا نشانہ صرف خدائی کشمیر (divine Kashmir) ہے۔ خدائی کشمیر کو اپنا نشانہ بنانے کا مطلب ہے، خدا والی سوچ کے تحت اپنے عمل کا نقشہ بنانا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکہ میں ہوئی تو آپ نے وہاں یہ اشو نہیں کھڑا کیا کہ مکہ سیاسی طور پر کس کے قبضے میں ہو۔ اس کے بر عکس ، آپ نے یہ کیا کہ صورتِ موجودہ (status quo)کو تسلیم کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیا ۔
کشمیریوں کو بھی اِسی نہج پر کام کرنا ہے۔ کشمیریوں کو یہ کرنا ہے کہ جموں و کشمیر میں جو سیاسی اسٹیٹس کو (political status quo) بن گیا ہے وہ اُس سے ٹکراؤ نہ کریں بلکہ اس کو تسلیم کرتے ہوئے وہ اپنی ساری کوشش پُر امن دعوت الی اللہ کے کام میں لگا دیں۔
یہی وہ سنت ہے جو عربوں کو فلسطین میں اختیار کرنا ہے ۔ فلسطین میں عربوں کے کرنے کا واحد کام یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنی متشددانہ تحریک کو مکمل طور پر ختم کر دیں ۔ وہ یک طرفہ طور پر ٹکراؤ کی پالیسی کو چھوڑ دیںاور اپنی ساری طاقت پر امن دعوت میں لگا دیں۔ فلسطین میں دعوت الی اللہ کےعظیم مواقع ہیں ، اسرائیل کے درمیان بھی اور سیاحوں (tourists) کے درمیان بھی، جو دنیا بھر سے بکثرت روزانہ فلسطین کے علاقے میں آتے ہیں۔
دعوت الی اللہ کا کام اہلِ ایمان کا اصل مشن ہے ۔ اسی مشن کی ادائیگی پر اُن کو اللہ کی نصرتیں حاصل ہوں گی۔ موجودہ زمانے کے مسلمان جن چیزوں کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں ، اُس مسئلے کا حل اللہ کی نصرت کے ذریعے ممکن ہے، نہ کہ محض ذاتی کوشش کے ذریعے، اور اللہ کی نصرت صرف اُن لوگوں کو ملتی ہے جو دعوت الی اللہ کا کام کریں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیا ہے :وَلَیَنصُرَنَّ اللہُ مَن یَّنصُرُہ (22:40)۔ یعنی، اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے۔
سوال
میں ایک طالب علم ہوںاور جدید تعلیم حاصل کر رہا ہوں لیکن اِسی کے ساتھ دینی معلومات بھی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ ڈیڑھ سال پہلے میں نے آپ کا نام سنا تھا لیکن جن کے ذریعے آپ کا تعارف ہوا انہوں نے آپ کا کوئی مثبت ذکر نہیں کیا بلکہ دلخراش واقعات سنائے جو کہ میرے لیے باعث تشویش رہے کہ کیا دین اسلام کا داعی اس قسم کی باتیں کہہ سکتا ہے، کیا ایسا ممکن ہے ؟
آپ کے حقیقی تعارف کے بغیر میں ہر وقت شش و پنج میں رہتا تھا۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ ان باتوں کی حقیقت کو جاننے کے لیے از خود آپ کی کتابوں کا مطالعہ کروں ۔ آخر کار اپنے ایک عزیز کی وساطت سے میں نے آپ کی ایک کتاب’’کاروانِ ملت‘‘ خریدی۔ کتاب مذکور میں ان سب سوالوں کا جواب تھا جس کی وجہ سے میں پریشان ہو چکا تھا ۔ وہ منفی تاثرات جو آپ کے متعلق مجھے بتائے گئے تھے ، وہ سب گمراہ کن لگے ۔ بعد میں آپ کی کتابوں کا مطالعہ میرے روزمرہ کے شیڈول کا ایک جزء بن گیا ۔میں نے جن کتابوں کا مطالعہ کیا ان میں یہ کتابیں قابلِ ذکر ہیں :کتابِ معرفت، عظمتِ اسلام، تعمیر انسانیت، دعوتِ اسلام The Quran for all Humanity, Creation plan of God ، وغیرہ۔
اب میں اس خدا کا شکر کرتا ہوں جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہ میرے خدا کی طرف سے یہ سب ممکن ہواکہ میں روحِ دین کو سمجھنے کی کوشش کروں ۔ اِس ’’عُسر‘‘ کے دور میں’’یُسر‘‘ کا ایک موقع مجھے ضرور ملا جس کو میں نے استعمال کیا۔ آپ کی کچھ باتیں جن کی وجہ سے میری زندگی میں بدلاؤ آیا، وہ مفہوم میں کچھ اس طرح ہیں :
-1غیر مسلم ہمارے دشمن یا حریف نہیں بلکہ وہ ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا ہمیں ان سے داعی اور مدعو کا رشتہ قائم کرنا ہو گا ۔
-2یک طرفہ طور پر دکھ درد کو برداشت کر کے ہی ہم اسلام کا پیغامِ امن ان تک پہنچا سکتے ہیں ۔
-3دینِ سلامتی کو دینِ قتل نہ بنائیں ۔ دینِ امن کو دینِ جنگ و جدال نہ بنائیں۔
-4گمراہ کن نعروں سے مسلمانانِ دنیا کے جان، مال اور آبرو کو مباح نہ بنائیں۔
-5دعوت کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہنا، وغیرہ وغیرہ۔
ان جیسی اہم باتوں نے مجھے آپ کی فکر کو اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ اِس دوران میرے ذہن میں بہت سے اشکالات رہے جن کے جوابات جاننا میرے لیے ضروری ہو گیا۔
امید ہے کہ آپ اپنی حد درجہ مشغولیت کے باوجود ذیل کی باتوں میں میری رہنمائی فرمائیں گے:
1۔اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کیا لائحہ عمل اپنانا ہوگا؟
2۔قرون اول میں جو فتوحات ہوئیں ،مثلاً مصر، روم ، ایران وغیرہ ، ان کو دفاعی جنگ (defensive war) کہنا کیسے ممکن ہے؟
3۔’’نہی عن المنکر‘‘ غیر اسلامی حکومت کے اندر کیسے کیا جائے؟
4۔دفاعی طریقہ کار سے کیا آج کے دور میں ہم کسی ملک کو زیر کر سکتے ہیں؟
)احمدوانی ،کشمیر(
جواب
کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا ، ایک بے حد سنگین بات ہے ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ متعلق شخص کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کرے ، اور پھر معلومات کے مطابق وہ اپنی رائے بنائے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میرے پاس اتنا وقت نہیں تو اس کو یہ جواب دیا جائے گا کہ پھر آپ کے اوپر فرض ہے کہ آپ ایسے شخص کے بارے میں کوئی رائے نہ بنائیں ، بلکہ خاموشی کا طریقہ اختیار کریں ۔
آدمی کے اوپر یہ فرض نہیں ہے کہ وہ ہر شخص کے بارے میں ضرور کوئی رائے بنائے۔ لیکن اگر اس کو کسی شخص کے بارے میں اپنے رائے کا اظہار کرنا ہے تو اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ پہلے وہ براہِ راست طور پوری معلومات حاصل کرے ،اور اس کے بعد متعلق شخص کے بارے میں اپنی رائے قائم کرے۔ جہاں تک مذکورہ سوالات کا تعلق ہے۔ یہ سوالات ہماری کتابوں میں زیرِ بحث آ چکے ہیں ۔ آپ نے مطالعے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ، اس کو جاری رکھیے، ان شاء اللہ آپ کو تشفی حاصل ہو جائے گی۔
سوال
2015ء سے میں ماہ نامہ الرسالہ کا قاری ہوں۔ آپ کی کتابیں بالخصوص پیغمبر انقلاب، غیر ملکی اسفار، وغیرہ کا مطالعہ کر چکا ہوں۔ پوسٹ گریجو یشن میں تاریخ خصوصی مضمون ہے۔ ایم اے کے دوران آپ کے مضمون تاریخِ انسانی کے مطالعے سے تاریخ کے متعلق مستفید ہوا۔ عالمی منظر نامے سے واقفیت رکھنے کے لیے Indian Expressپڑھتا ہوں۔
انسانی تاریخ کے مختلف مراحل کو ذہن میں رکھ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ کا مشن صلح حدیبیہ پر اتفاق، صبر و ضبط کا فارمولاہی انسانی زندگی اور اس کی بقاء اور ارتقاء کے لیے لازم ہیں۔ اس دورِ انسانی میں، جس میں ہم جی رہے ہیں، آپ حالات کی سنگینی سے زیادہ واقف ہیں۔ایسے وقت میں جب کہ لوگ اسلام کے نام پر، اسلام کواس طرح پیش کر رہے ہیں جو اسلام کی تعلیمات کے منافی ہیں، صلح حدیبیہ ماڈل کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ صبر و ضبط اپنی جگہ، ان کی غلط فہمی رفع کرنے کے لیے کس راستے کا انتخاب کیا جائے؟(محمد اسماعیل اشفاق احمد، مسلم پورہ، مالیگاؤں)
جواب
ہمارا لٹریچر پورا کا پورا اِسی سوال کا جواب ہے۔ آپ نے ابھی صرف چند کتابیں پڑھی ہیں، اس لیے آپ کو یہ شک پیدا ہوا۔ اگر آپ تمام کتابیں پڑھیں، اور اسی کے ساتھ ہمارا ماہ نامہ الرسالہ(اردو) اور اسپرٹ آف اسلام(انگریزی) کا مطالعہ جاری رکھیں تو آپ کے تمام سوالا ت رفع ہو جائیں گے، ان شاءاللہ۔اصل یہ ہے کہ عام طور پر لوگ وقتی مسائل میں الجھے رہتے ہیں۔ لوگوں کا یہی مزاج ہے جو لوگوں کے اندر ردّ عمل (reaction)کی نفسیات پیدا کرتا ہے۔
ردّ عمل کی نفسیات مزید بڑھ کر نفرت کی نفسیات بن جاتی ہے۔ اور نفرت کی نفسیات آخرکار لوگوں کو تشدد تک پہنچا دیتی ہے۔لوگوں کا حال یہ ہو جاتا ہے کہ اگر وہ فعال تشدد (active violence)میں مبتلا نہ ہوں تب بھی وہ منفعل تشدد (passive violence)کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس نفسیات کا سب سے زیادہ برا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ مثبت سوچ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ مثبت سوچ ہی تمام ترقیات کا اصل زینہ ہے۔
سوال
یہاں ہمارے ساتھی اِس بات سے منفی (negative) ہو رہے ہیں کہ وہ دعوتی کام کرتے ہیں، لیکن لوگ تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ اِس کا حل کیا ہو، اور اپنے دعوتی ساتھیوں کو کیسے سمجھایا جائے؟(طارق بدر، پاکستان)
جواب
جو لوگ دعوت کے معاملے میں اس طرح کی منفی بات کہتے ہیں، اُن کو قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔قرآن میں نبیوں کا تذکرہ ہے۔ انبیاء وہ لوگ ہیں، جو دعوت کے معیاری ماڈل تھے۔ انہوں نے جب لوگوں کے سامنے دعوت پیش کی تو اکثریت نے منفی ردّ عمل کا اظہار کیا۔ چنانچہ قرآن میں اس تجربے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:يٰحَسْرَةً عَلَي الْعِبَادِ ڱ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ (36:30)۔یعنی، افسوس ہے بندوں کے اوپر، جو رسول بھی اُن کے پاس آیا، وہ اُس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ دعوت کے مقابلے میں منفی ردّ عمل کے باوجود انبیاء اپنا دعوتی کام کرتے رہے۔ انہوں نے لوگوں کی شکایت نہیں کی، اور نہ اپنا دعوتی کام چھوڑا۔
اِس کا سبب یہ تھا کہ انبیاء جو دعوتی کام کرتے تھے، وہ مدعو کے لیے نہیں کرتے تھے، بلکہ اللہ کے لیے کرتے تھے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء دعوت کے کام میں ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس لیے جو لوگ دعوت کا کام کریں، اُن کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اِس ماڈل کو اپنے سامنے رکھیں۔ مثلاً پیغمبر اسلام آخری پیغمبر ہیں۔ آپ کی مثال بتاتی ہے کہ دعوت کا ایک اصول — ری پلاننگ ہے۔ مکی دور کا طریقہ مؤ ثر نہیں ہوا ، تو آپ نے دعوت کا دوسرا منصوبہ بنایا، اور یہ دوسرا منصوبہ اتنا زیادہ کامیاب ہوا کہ پوری قوم نے اُن کی دعوت کو قبول کرلیا۔ اِس نمونے سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کا ایک اصول ری پلا ننگ ہے۔ اگر ایک طریقہ (method) مؤ ثر نہ ہو، تو داعی کو چاہیے کہ وہ دوسرے طریقہ کا تجربہ کرے۔ عین ممکن ہے کہ دوسرا طریقہ اللہ کی مد د سے کامیاب ثابت ہو۔