فساد اور اسبابِ فساد
کوئی فساد (riot)جب ہوتا ہے تو وہ اچانک نہیں ہوتا ۔ ہر فساد سے پہلے اُس کے اسباب ظاہر ہوتے ہیں جو دھیرے دھیرے فساد بن جاتے ہیں۔ گویا کہ ہر فساد دراصل اسبابِ فساد کا نقطۂ انتہا (culmination) ہوتاہے۔ اِس لیے فسادکے خلاف اصلاحی کوشش کا آغاز، ظہورِ فساد سے پہلے ہونا چاہیے ،نہ کہ ظہورِ فساد کے بعد۔ اسلام میں نہی عن المنکر کا مطلب یہی ہے۔ نہی عن المنکر کا حکم اِسی لیے دیا گیا ہے کہ فساد سے پہلے اسبابِ فساد کو روکا جائے، تاکہ فساد کی نوبت نہ آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسبابِ فساد کو ختم کرنے کی کوشش کرنا، اصلاح ہے۔ اور فساد ہوجانے کے بعد متحرک ہونا صرف لیڈری ہے۔ جو لوگ اسبابِ فساد کے ظہور کے وقت خاموش رہیں اور جب عملاً فساد ہوجائے تو وہ جوش وخروش کے ساتھ حرکت میں آجائیں، ایسے لوگ خود بھی فساد انگیزی کے مجرم ہیں۔ اِس قسم کے لوگوں کو اصلاحِ فساد کا کریڈٹ (credit) نہیں مل سکتا۔ اصلاحِ فساد کا کام، فسادسے پہلے شروع ہوتا ہے، نہ کہ عملی طور پر فساد ہوجانے کے بعد۔
اسبابِ فساد کیا ہیں۔ جب کسی سماج میں نفرت کی بولی بولی جائے، جب ایسا ہو کہ کسی گروہ کو ظالم اور دشمن بتا کر اس کے خلاف بُری خبریں پھیلائی جائیں، جب کسی سماج میں ایسے لوگ اس کے لیڈر بن جائیں جو ذاتی ذمے داریوں (duties) کی بات نہ کرتے ہوں، بلکہ وہ حقوق (rights)کو لے کر اپنی محرومی کی داستان سناتے ہوں، جب اپنے لوگوں کی برائیوں پر اُن کو نہ روکا جائے اور دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی مہم چلائی جائے، تو سمجھ لیجیے کہ ایسے سماج میںاسبابِ فساد کی آگ بھڑکائی جارہی ہے، جو کسی نہ کسی دن بڑھ کر عملی فساد کی صورت اختیار کرلے گی۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ قوم کے رہ نما خود اپنی قوم کی اصلاح پر ساری توجہ لگائیں، نہ کہ دوسری قوم کے خلاف لوگوں کے اندر منفی جذبات پیدا کریں۔ جو لوگ ایسا نہ کریں، وہ مفسد ہیں، نہ کہ مُصلح۔فساد کا علاج اسبابِ فساد کی روک تھا م ہے، نہ کہ فساد کے خلاف شکایت اور احتجاج۔