خلافت کا دور
خلافت کا دور اقتدار کا دور ہے۔ اقتدار ، عین اپنی طبیعت کے اعتبار سے بہت سی خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ اس لیے دور خلافت (دور اقتدار) میں صبر کی اہمیت ہمیشہ سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
1۔ دور خلافت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر عہدوں کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ ہر آدمی یہ چاہنے لگتا ہے کہ اس کو ایک اچھا سیاسی عہدہ مل جائے۔ اگر یہ مزاج باقی رہے تو خلافت کا پورا نظام بر باد ہو کر رہ جائے گا۔
یہاں صبر ( اپنی خواہشات کو روکنا ) اس بات کی ضمانت ہے کہ خلافت کے دور میں عہدوںکی طلب کی برائی نہ پیدا ہو۔ عہدے اگر اہلیت کی بنیاد پر دیے جائیں تو اس سے خلافت کا نظام طاقت ور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، عہدے اگر خواہشات کی بنیاد پر دیے جانے لگیں توخلافت کا پورانظام کمزور ہو کر رہ جائے گا۔ ایسی حالت میں خلافت کے نظام کو صحت مند حالت پر باقی رکھنے کے لیے صبر کی صفت انتہائی طور پر ضروری ہے۔
دور اول میں اس کی ایک عظیم الشان مثال انصار کا اس پر راضی ہونا ہے کہ وہ عہدہ خلافت کے معاملہ میں قریش سے نزاع نہیں کریں گے ۔ انصار نے اسلامی انقلاب لانے کے لیے یکساں طور پر قربانیاں دی تھیں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ کس شخص کو خلیفہ بنایا جائے تو حضرت ابو بکر صدیق نے ایک تقریر کی جس میں انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ خلیفہ قریش میں سے ہو۔ اگر قریش کے باہر کسی کو خلیفہ بنایا جائے تو تاریخی روایت کی بنا پر اہل عرب کے لیے وہ قابل قبول نہ ہوگا اور لوگ اس کی اطاعت سے انکار کر دیں گے۔ انصار نے اس مصلحت کی اہمیت کو محسوس کیا اور خلافت کے مطالبہ سے دست بردار ہو گئے۔
انصار کا یہ فعل بلاشبہ اسلامی تاریخ کا ایک عظیم الشان واقعہ ہے۔ اگر وہ اپنی قربانیوں کی فہرست بنا کر عہدۂ خلافت کے لیے اصرار کرتے تو یقینی تھا کہ مسلمان اقتدار کی رسہ کشی میں مشغول ہو جاتے اور اسلام کی تاریخ بننے سے پہلے مدینہ میں دفن ہو جاتی۔ یہ واقعہ بلاشبہ صبر کا واقعہ ہے۔ انصار کے اندر اگر صبر کا مادہ نہ ہوتا تو وہ ہرگز یہ عظیم الشان کا ر نامہ انجام نہیں دے سکتے تھے۔حکومت ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق پورے ملک سے ہوتا ہے ۔ ملک میں ہرقسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ اچھے بھی اور برے بھی، جاہل بھی اور عالم بھی، نرم بھی اور سخت بھی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خلیفہ (حکمراں) کو لوگوں کی طرف سے تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ خلیفہ اگر لوگوں کی تنقیدوں کو برداشت نہ کرے اور اس کو ذاتی انتقام کا مسئلہ بنالے تو وہ کبھی انصاف نہیں کر سکتا۔ خلیفہ کو عدل پر قائم رکھنے کے لیے لازمی طور پر یہ صفت درکار ہے کہ وہ لوگوں کی تنقیدوں کو برا نہ مانے۔ لوگوں کی سخت کلامی کے باوجود وہ ان کے ساتھ نرمی اور اعتدال کا رویہ اختیار کرے۔
خلیفۂ اول حضرت ابو بکر کے ایک سرکاری فرمان کو ایک بار حضرت عمر نے بر سر عام پھاڑ کر پھینک دیا۔ مگر خلیفہ اول نے اس کو بر انہیں مانا اور نہ اس بنا پر ان کے دل میں عمر فاروق کی اہمیت کم ہوئی(ادب الدنیا و الدین للماوردی، صفحہ163)۔ حضرت عمر فاروق جب خلیفہ ہوئے تو بار بار ایسا ہوا کہ لوگوں نے ان پر سخت الفاظ میں تنقیدیں کیں۔ مگر حضرت عمر نے کبھی ان کے خلاف منفی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ مثلاً ایک بار تقریر کے دوران بر سر عام ایک شخص نے کہا کہ اگر ہم تمہارے اندر ٹیڑھ دیکھیں گے تو ہم اسی طرح سیدھا کریں گے، جس طرح تیر کو سیدھا کرتے ہیں۔ خلیفہ ثانی اس پر غصہ نہیں ہوئے، بلکہ یہ کہا کہ اس خدا کا شکر ہے جس نے مجھے ایک ایسی قوم میں بنا یا کہ اگر میرے اندر انحراف پیدا ہو تو وہ مجھے سیدھا کر دے(الزھد والرقائق لابن المبارک،حدیث نمبر512)۔
خلیفہ کے اندر تنقید کو برداشت کرنے کا یہ مادہ انتہائی طور پر ضروری ہے۔ اس کے بغیر وہ ملک اور قوم کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔ مگر یہ اعلیٰ صفت کسی شخص کے اندر اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ اس میں صبر کا مادہ موجود ہو۔ صبر کسی خلیفہ کو عدل پرقائم رکھتا ہے، اگر اس کے اندر صبر نہ ہو تو کوئی بھی چیز اس کو ظلم کی راہ پر جانے سے روک نہیں سکتی۔