ڈی لنکنگ— ایک سنتِ رسول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت وہ ہے، جس کو پالیسی آف ڈی لنکنگ (policy of delinking) کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر مکہ میں آپ نے اپنا مشن شروع کیا۔ اس وقت مکہ اہل شرک کے قبضے میں تھا۔ انھوں نے کعبہ کو 360بتوںکا مرکز بنا دیا تھا۔ رسول اللہ نے یہ کیا کہ کعبہ میں آنے والے زائرین اور اس میں موجود بتوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا۔یعنی بت پرستی اور کعبہ کے قریب بت پرستوں کے اجتماع میں فرق کرنا۔ اس طرح ڈی لنکنگ پالیسی اختیار کرنے کی بنا پر آپ کے لیے یہ ممکن ہوا کہ آپ مکمل طور پر مثبت ذہن کے ساتھ اپنا مشن ، دعوت الی اللہ کا عمل انجام دےسکیں۔ اگر آپ ڈی لنکنگ پالیسی اختیار نہ کرتے تو یہ فائدہ کبھی حاصل نہ ہوتا۔
ایسا کیوں ہے۔ اس کو صحابی رسول عمر و بن العاص (وفات 43ھ)کے قول سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ان کا قول یہ ہے:لَیْسَ الْعَاقِلُ الَّذِی یَعْرِفُ الْخَیْرَ مِنَ الشَّرِّ، وَلَکِنِ الْعَاقِلُ الَّذِی یَعْرِفُ خَیْرَ الشَّرَّیْنِ( المجالسۃوجواہر العلم، اثر نمبر670)۔ یعنی عقل مند وہ نہیں ہے، جو خیر کے مقابلے میں شر کو پہچانے۔ بلکہ عقل مند وہ ہے، جو یہ جانے کہ دو شر کے درمیان خیرکیا ہے ۔
اس کا مطلب یہی ہے کہ شر کے مختلف پہلوؤں کو ڈی لنک کرکے دیکھا جائے تو شر کے اندر بھی خیر کا پہلو مل جائے گا۔ آپ نے کعبہ میں بت اور بت پرستوں کے معاملے میں جو طریقہ اختیار کیا، وہ کیا تھا۔ ان بتوں کا ظاہری پہلو یہ تھا کہ وہ شرک کا ذریعہ تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ انھی بتوں کی وجہ سے وہاں لوگ جمع ہوتے تھے، اور اس کی وجہ سے وہاں ایک آڈینس بنتا تھا۔ رسول اللہ نے یہ کیا کہ بتوں کے مشرکانہ پہلو کو الگ کردیا، اور بتوں کی وجہ سے وہاں آنے والے لوگوں کو اپنے لیے بطورِ آڈینس استعمال کیا۔ اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر عسر کے ساتھ یسر کا پہلو موجود ہوتا ہے۔انسان اگرمثبت ذہن کے ساتھ معاملے میں غور کرےتو ہرعسر میں اس کو یسرکا پہلو مل جائے گا۔
انیسویں صدی میںانگریز جب انڈیا میں آئے تو انھوں نے مسلمانوں کو بہت سی چیزیں دیں۔ مثلاً انگریزی ایجوکیشن، جس کی وجہ سے مسلمان اس قابل ہوئے کہ وہ انڈیا کے باہر کی دنیا کو دیکھ سکیں۔ لیکن سارے مسلمانوں نے انڈیا میں اینٹی برٹش تحریک چلادی۔اسی طرح آزادی کے بعد جو حکومت آئی اس نے بھی مسلمانوں کو بہت کچھ دیا۔ لیکن دوبارہ مسلمانوں کو حکومت سے شکایت پیدا ہوگئی، وغیرہ۔
اس کا سبب یہ ہے کہ مسلم قائدین زندگی کے ایک اصول کو نہیں جانتے ہیں۔ وہ اس فطری قانون کو نہیں جانتے کہ ہر عسر کے ساتھ یسرموجود ہوتاہے (الانشراح،94:5-6)۔ عسرکا مطلب ہے مسئلہ(problem)،اور یسر کا مطلب ہے موقع (opportunity)۔ یعنی پرابلم کے درمیان موجود مواقع کو جاننا، اور منصوبہ بند انداز میں ان کو اویل (avail) کرنا، یہی زندگی کا اصول ہے۔ لیکن مسلم لیڈروں نے اس اصول کو نہ پہلے جانا، اور نہ وہ اب اس کو جانتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ ایک کام کیا ہے۔وہ ہے موجود مواقع کو نظر انداز کرنا، اور جو چیز موجود نہیں ہے، اس کے اوپر تحریک چلانا۔ یہی غیر حقیقی طریقِ کار ہر دور میں مسلمانوں پر غالب رہا ہے۔ اس لیے مسلمانوں نے ہر دور میں صرف کھویا، کسی بھی دور میں وہ پانے والی چیز کو پانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
قرآن کی سورہ البقرہ میں زندگی کی ایک حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے، اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو (2:155)۔ توسیعی اعتبار سے حکومت کا ملنا، اور اس کا ہاتھ سے نکلنا ، وغیرہ بھی اس میں شامل ہے۔ اور صبر کا مطلب ہے پرابلم کو اگنور کرنا، مواقع کو اویل (avail)کرنا۔
انسان پر زندگی کے جو مختلف مرحلے پیش آتے ہیں، وہ ایک موقع کے طور پر پیش آتے ہیں۔ زندگی کو جاننے والا شخص وہ ہے، جو زندگی کو ایک موقع کی صورت میں دریافت کرے، اور پھر منصوبہ بند انداز میں اس موقع کو استعمال کرے۔مشکل حالات منفی چیز نہیں۔مشکل حالات یا چیلنج کسی انسانی گروہ کو تخلیقی گروہ بناتا ہے۔جب کسی گروہ کے اندر ایسی حالت پیدا ہو، تو انسان اس کو فطرت کا تحفہ سمجھے،اور ڈی لنکنگ کا طریقہ اختیار کرکے وہ اس کو بطور موقع اویل کرے۔ اس طرح نان کریٹو گروہ کریٹیو (creative) گروہ بن جائے گا۔