انسان اور نظامِ ربوبیت
انسان ایک مکمل وجود ہے، مگر اِسی کے ساتھ وہ مکمل طورپر خارجی سہارے کا محتاج وجود ہے۔یعنی، انسان کو اپنے وجود کی تکمیل کے لیے ہر لمحہ ایک مددگار نظام درکار ہے۔ اِس نظام کے بغیر وہ اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتا۔اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ (47:38)۔یعنی، اور اللہ بےنیاز ہے، تم محتاج ہو۔
اِس مددگار نظام کا نام نظامِ ربوبیت ہے، یعنی رب العالمین کا قائم کردہ نظام۔مثلاًانسان کے اندر نظامِ ہضم(digestive system) ہے، مگر غذائی اشیا کی سپلائی باہر سے ہوتی ہے۔ انسان کے اندر نظامِ تنفس (respiratory system )ہے، مگر آکسیجن اس کو خدا کے کارخانے سے ملتا ہے۔ انسان کے پاس نظامِ بصارت ہے، مگر وہ روشنی خداکی طرف سے آتی ہے جس کے بغیر وہ دیکھ نہیں سکتا۔ انسان کے پاس نظامِ سماعت ہے، مگر اُس ہوا کو چلانے والا خدا ہے جس کے ذریعہ انسان کے کانوں تک آواز پہنچتی ہے، وغیرہ۔انسانی وجود کے اندر اِس قسم کے بہت سے نظام ہیں، مگر ہر نظام اپنی کارکردگی کے لیے خارجی مدد کا محتاج ہے۔ یہ مختلف قسم کے خارجی نظام جن پر انسانی زندگی کا انحصار ہے۔ ان کے مجموعہ کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتاہے۔ یہ اگر سسٹم موجود نہ ہو تو انسان کا پورا وجود بے معنی ہوجائے گا۔
مچھلی پانی کے باہر مسلسل تڑپتی رہتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتاہے کہ اس کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے اور مچھلی صرف پانی سے آکسیجن لے سکتی ہے۔ مچھلی کی یہ مثال ہر آدمی کے لیے بہت زیادہ سبق آموز ہے۔ ہر وقت انسان کو سوچنا چاہیے کہ خدا اگر لائف سپورٹ سسٹم یا بالفاظ دیگر اپنے نظامِ ربوبیت کو واپس لے لے تو میراکیا حال ہوگا۔قرآن میں ہے:بتاؤ، اگر اللہ قیامت کے دن تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات کردے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے لیے روشنی لے آئے۔ تو کیا تم لوگ سنتے نہیں (28:71)۔یہ سوچ اگر آدمی کے اندر حقیقی طورپر پیدا ہوجائے تو یہی ایک بات اس کے اندر تمام اعلیٰ انسانی قدروں (human values) کو پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے گی۔ مثلاً تواضع (modesty) ، شکر، عفو ودرگزر، خیر خواہی، انصاف، وغیرہ۔