ملوکیت کا دور
اسی طرح ملوکیت کے دور میں بھی صبر انتہائی طور پر ضروری ہے ۔ زندگی میں اتار چڑھاؤ کا آنا لازمی ہے، اسی طرح ملوکیت کا زمانہ بھی ضرور آکر رہتا ہے۔ ایسے وقت میں اگر ملوکیت کے نظام پر صبر نہ کیا جائے تو مسلم معاشرہ میں زبر دست خلفشار بر پا ہو گا۔ امت دو طبقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک،ملوک اور ان کے ساتھی۔ دوسرے، عوام اور ان کے رہنما۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف مسلح اور غیر مسلح لڑائی شروع کر دیں گے، جس کا انجام دو طرفہ بربادی کے سوا اور کسی شکل میں نہیں نکلے گا۔
ایسے حالات میں صبر یہ کارنامہ انجام دیتا ہے کہ لوگ حکمرانوں سے اعراض کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے دوسرے تعمیری اور اصلاحی میدانوں میں اپنے آپ کو مصروف کر لیں۔ اس طرح نہ صرف یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی طاقت ضائع ہونے سے بچ کر اپنا مفید استعمال پالیتی ہے، بلکہ اگر یہ غیر سیاسی اصلاحی کوششیں زیادہ بڑے پیمانہ پر صالح معاشرہ کی تشکیل کر سکیں تو بالواسطہ طور پر حکومت کا ادارہ بھی ضرور متاثر ہوتا ہے۔ وہ سیاسی مقصد جو براہ راست عمل کے ذریعہ حاصل نہیں ہوا تھا، وہ بالواسطہ عمل کے ذریعہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔
صبر، خواہ وہ دعوت کے مرحلہ میں ہو یا خلافت اور ملوکیت کے مرحلہ میں، ہمیشہ ناگزیر طور پر ضروری ہوتا ہے۔ ہر قسم کی ترقی اور کامیابی صبر کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ صبر اس بات کی ضمانت ہے کہ آدمی ناممکن کے پیچھے نہیں دوڑے گا، بلکہ ممکن کے دائرہ میں اپنی کوششیں صرف کرے گا۔ صبر آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ الاقدم فالا قدم کے اصول پر عمل کرے، وہ منصوبہ بند انداز میں اپنا تمام کام کرنے لگے۔
دور ملوکیت میں صبر کی اہمیت کی تفصیل راقم الحروف کی کتاب ’’راہ عمل‘‘کے متعلقہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں۔ وہاں اس کی مزید تفصیلات درج ہیں۔