محبت کے بجائے نفرت
’’میں مراد آباد میں پیدا ہوا۔ پھر دس برس بجنور میں رہا ۔ 14 برس دہلی میں اور اب35 برس سے حجاز میں ہوں۔ حضرت شاہ عبد العزیز کے فتوے کی بنا پر میں ہندستان کو دارالحرب جانتا تھا اور اس کے قیام کو حرام۔ اسی نظریہ کے تحت انگریزی دور میں ہندستان سے ہجرت کی، بلکہ ہجرت شرعی سے بھی کچھ زیادہ۔ یہ معاملہ میری نظر میں اتنا سنگین تھا کہ حجاز آنے کے بعد دوبارہ ہندستان واپس جانے کے تصور کوبھی میں نا جائز خیال کرتا تھا ۔ ایک بار میں بیوی کے ساتھ حج کے لیے گیا ہوا تھا۔ عرفات کا میدان تھا اور عصر و مغرب کے درمیان کا وقت۔یہ وقت میدان عرفات میں گناہوں کی بخشش کا ہوتا ہے، میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ یہ گنا ہوں کی معافی کا وقت ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ حقوق العباد کا ہوتا ہے۔ مجھ سے تمہارے حقوق کی ادائیگی میں جو کوتاہی ہوئی ہو اس کو معاف کردو۔ بیوی نے کہا کہ ایک شرط ہے ۔ وہ یہ کہ تم مجھ کو ہندستان لے جاکر ایک بار مجھے میرے عزیزوں سے ملادو۔ ہندستان کا نام سن کر میرے ہوش اڑ گئے ۔ میں اور ہندستان ۔ پھر میں نے اپنے دل میں سوچا کہ ایک طرف دوزخ ہو،ا ور دوسری طرف ہندستان تو تم دونوںمیں سے کس کو ترجیح دوگے۔ اس کے بعدمیں نے جوفیصلہ کیا وہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں ‘‘۔
یہ ایک بزرگ کی خود نوشت کہانی کا ایک حصہ ہے، جو انھوں نے دہلی کے ایک اردو روزنامہ (5 اگست 1991ء) میں شائع کی ہے ۔ یہ کوئی ایک کہانی نہیں، اس قسم کی ان گنت کہانیاں ہیں، جو ساری دنیا میں بکھری ہوئی ہیں ۔ موجودہ زمانہ میں ایسے بے شمار لوگ پیدا ہوئے، جنھوں نے غیرمسلم قوموں کو اسلام کا حریف سمجھ کر ان سے نفرت کی ، مگر وہ ان کو اسلام کا مدعو اور مخاطب سمجھ کر ان سے محبت نہ کر سکے۔ ان خیالات کے تحت بے شمار لوگ ایسی ہجرت اور جہاد میں مصروف رہے، جس کا کوئی فائدہ نہ دینی صورت میں نکلنے والا تھا اور نہ دنیوی صورت میں ۔
کیسی عجیب بات ہے۔ لوگوں نے ہندستان کو دارِحرب سمجھا، مگر وہ اس کو دارِدعوت نہ سمجھ سکے ۔ ہندؤوں کو انھوں نے غیر قوم قرار دیا،مگروہ ان کو مدعو قوم قرار نہ دے سکے۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں کو لوگوں نے شیطان کے بندے کہہ کر ان کے خلاف جہاد کیا، مگر وہ ان کو خدا کے بندے سمجھ کر ان کو خدا سے قریب لانے کی کوشش نہ کر سکے ۔ انھوں نے مسلم حکمرانوں اور بادشاہوں کو ظالم ٹھہرا کران کی ہلاکت کے منصوبے بنائے، مگر وہ ان کو اپنا بھٹکا ہوا بھائی جان کر ان کی اصلاح کی خیر خواہانہ کوشش نہ کر سکے۔ کیسی عجیب تھی یہ ہجرت اور کیسا عجیب تھا یہ جہاد۔ اس عجیب و غریب ہجرت اور جہاد کے نتیجہ میں اگر موجودہ دنیا میں اسلام کو غلبہ حاصل نہ ہو سکا تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔