بحران کا مسئلہ
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آپ اکثر آرٹ آف کرائسس مینجمنٹ (the art of crisis management) کی بات کرتے ہیں۔ یہ نہایت اہم موضوع ہے۔ یہ ہر آدمی کا ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ ہر آدمی کبھی نہ کبھی کرائسس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اِس کا کارگرفارمولا کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اِس کا کارگر فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب زندگی میں کوئی کرائسس پیش آئے، تو اس کو خدا کے حوالے کردیا جائے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کی بابت، صحابیٔ رسول، حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا: الخیر فیما وقع۔یعنی، جو کچھ پیش آئے، اس کو آدمی خدا کی طرف سے سمجھے اور اس پر راضی ہوجائے۔ اِسی حقیقت کو ایک فارسی مقولے میںاِس طرح بیان کیاگیا ہے — دشمن اگر قوی ہے، تو نگہبان اس سے بھی زیادہ قوی ہے:
دشمن اگر قوی است، نگہباں قوی تر است
If the enemy is strong, the Saviour is stronger.
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں جو کچھ پیش آتا ہے، وہ براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔یعنی حالات کا اہتمام خدا کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ انسان کا حصہ اُس میں صرف یہ ہے کہ وہ مثبت رسپانس (positive response) دیتا ہے، یا منفی رسپانس (negative response)۔ وہ یا تو ایک قسم کا رسپانس دے کر کریڈٹ (credit) پاتا ہے، یا دوسرے قسم کا رسپانس دے کر اپنے آپ کو ڈس کریڈٹ (discredit) کرلیتا ہے۔
ایسی حالت میں انسان کے بارے میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے صبری سے بچائے اور بہتر انجام کے لیے خدا سے دعا کرتا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں صبر بھی ایک عمل ہے اور دعا بھی ایک عمل۔