صبر اور امن
نان وائلنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے عین وہی چیز ہے جس کو قرآن میں صبر کہاگیاہے ۔صبر دراصل مثبت ردِ عمل کا دوسرانام ہے ۔ناخوش گوارحالات میں منفی ردِ عمل سے اپنے آپ کو بچانااوریک طرفہ طورپر اپنے آپ کو مثبت ردِ عمل پر قائم رکھنا،یہی صبر کی حقیقت ہے ۔چونکہ اس اخلاقی روش پر قائم ہونے کے لیے برداشت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اس کو شریعت میں صبر کانام دیاگیا۔
23جولائی1993ءکومیں نے جمعہ کی نماز دہلی کی مسجدسنگ تراشان پہاڑ گنج میں پڑھی۔ اس مسجد کے چاروں طرف صد فی صد ہندوؤں کی آبادی ہے ۔1947ء کے بعد یہ مسجد بند ہوگئی تھی ۔ یہاں محلہ کے لوگ کوڑا ڈالا کرتے تھے۔1982ء میں دہلی کے ایک مسلمان جناب محمود سعید بلالی (پیدائش1953ء) کو خیال ہوا کہ اس مسجد کو واگزار کیا جائے۔
انھوں نے کوشش کر کے اس مسجد کو کھلوایا۔ اس کی صفائی اور مرمت کرائی۔ اب سوال یہ تھاکہ اس کو آباد کس طرح کیا جائے ۔ کیوں کہ یہاں قریب میں کوئی مسلمان نہیں۔ چنانچہ انھوں نے ایک استادرکھ کر یہاں ایک مدرسہ قائم کر دیا۔ دو در جن مسلمان بچے یہاں رہنے اور پڑھنے لگے۔ اس طریقہ یہاںپنج وقتہ نماز قائم ہوگئی ۔
محمود سعید بلالی صاحب (Tel. 3260028) نے اپنے واقف کاروں کے حلقہ میں اس مسجد کے بارے میں بتایا تو جمعہ کے دن کافی لوگ یہاں آنے لگے۔ یہاں تک کہ مسجد نمازیوں سے بھر جاتی تھی۔ بلال صاحب نے طلبہ اور نمازیوں کی سہولت کے لیے یہ منصوبہ بنا یا کہ صحن کے نصف حصہ میں چھت ڈال کر ایک سائبان بنا دیا جائے۔ انھوں نے کام شروع کر دیا۔ سانچہ بن گیا اور اس پر چھت کی تعمیر کی جانے لگی۔
یہ 9 مارچ 1991 کا واقعہ ہے۔ اچانک تقریباً ڈیڑھ سو ہندو جمع ہو گئے، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم چھت بننے نہیں دیں گے۔ تم اس چھت کو اتار و، ورنہ یہاں خون ہو جائے گا اور تمہاری مسجد بھی باقی نہیں رہے گی۔ ایک طالب علم نے پولس اسٹیشن جا کہ انہیں خبر کر دی۔ اس کے بعد بڑی تعداد میں پولس آگئی ۔ ان میں پولیس افسران بھی تھے۔ پولیس نے موقع کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ یہ تعمیر قانون کے دائرہ میں ہو رہی ہے ، اس لیے کوئی اس کو روک نہیں سکتا ۔ پولیس نے مسلمانوں سے کہا کہ تم لوگ چھت بناؤ ، ہم یہاں کھڑے ہوئے ہیں۔
محمود سعید بلالی نے سوچا کہ اگر میں پولیس کے کہنے سے چھت کا کام جاری رکھوں تو یہ پولیس والے یہاں کب تک میری حفاظت کریں گے ، آخر کار تو سابقہ انھیں پڑوس کے ہندوؤں سے رہے گا۔ اور وہ چھت تو کیا، مسجد بھی توڑ کر رکھ دیں گے۔ اور کوئی انہیں روک نہ سکے گا۔ بلالی صاحب انھیں خیالات میں تھے کہ ہندو مجمع میں سے ایک بوڑھا آدمی آگے آیا۔ اس نے کہا کہ میاں جی ، اس وقت یہ لوگ بہت جوش میں ہیں۔ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ تم ضد نہ کرو اور اپنی چھت اتار دو۔
بلالی صاحب نے فوراً اس کو استعمال کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ بڑے میاں جس طرح تمہارے بڑے ہیں، اسی طرح وہ میرے بھی بڑے ہیں۔ میں ان کی بات مانتا ہوں۔ اور اسی وقت اپنے مزدوروں سے کہہ دیا کہ چھت اتار دو ۔چنانچہ چھت اتار دی گئی۔ اس وقت تک اس چھت پر 25ہزار روپےخرچ ہو چکے تھے ۔
اس واقعہ کا علاقہ کے تمام ہندوؤں پر بہت اچھا اثر پڑا۔ سب کے سب مسجد اور مسجد والوں کے ہمدرد بن گئے۔ اب یہاں لاؤڈ سپیکر کی اذان کے ساتھ پنج وقتہ نماز ہوتی ہے۔ باقاعدہ جمعہ ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیم کا ایک مدرسہ چل رہا ہے ۔ رمضان میں شاندار تراویح ہوتی ہے ، وغیرہ۔ مگر ہندوؤں کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں۔ وہ لوگ اکثر کہتے رہتے ہیں کہ آپ کی کوئی ضرورت ہو تو ہم کو بتائیے۔ اگر کوئی ہندو آپ کو پریشان کرے تو فوراً ہم کو بتائیے ۔ ہم اس سے نمٹ لیں گے۔
6 دسمبر1992ء کو جب یہ خبر پھیلی که اجودھیا کی بابری مسجد توڑ دی گئی، ساری دہلی میں تناؤ کی صورت پیدا ہوگئی ۔ کئی جگہ ہندو مسلم فسادات بھی ہوئے۔ اس علاقہ میں بھی تناؤ کی حالت تھی۔ جبکہ اس وقت مسجد میں23 مسلم بچے موجود تھے۔
محمود سعید بلالی صاحب اس وقت جامع مسجد کے علاقہ میں تھے اور کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ مگر پڑوس کے ہندو ان کا بدل بن گئے۔ وہ خود مسجد میں آئے۔ بچوں کو لے جاکر ایک قریبی اسکول میں رکھا۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا۔ اور پھر تمام بچوں کو حفاظت کے ساتھ ان کے گھروں تک پہنچایا۔
بلالی صاحب اگر ضد کرتے اور ا کڑ دکھاتے تو دوسری طرف بھی ضد اور اکڑ پیدا ہوتی۔ اور پھر فساد برپا ہو جاتا۔ مگر جب انھوں نے نرمی اور تواضع کا انداز اختیار کیا تو دوسری جانب بھی نرمی اور تواضع پیدا ہو گئی۔ اس کے بعد فساد کا ماحول امن کے ماحول میں تبدیل ہو گیا۔