دانش مندانہ طریقہ
صحابی رسول عمیر بن حبیب بن خماشہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:مَنْ لَا يَرْضَى بِالْقَلِيلِ مِمَّا يَأْتِي بِهِ السَّفِيهُ يَرْضَى بِالْكَثِيرِ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 2258) ۔ یعنی، جو شخص نادان کی طرف سے پیش آنے والے چھوٹے شر پر راضی نہ ہوگا، اس کو نادان کے بڑے شر پر راضی ہونا پڑے گا۔
اس قولِ صحابی میں اجتماعی زندگی کی ایک حکمت کو بتایا گیا ہے۔ اجتماعی زندگی کبھی یکساں نہیں ہوتی۔ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ مختلف قسم کے مسائل پیش آتے ہیں۔ اس بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے کی طرف سے ایسا تجربہ پیش آئے گا جو اس کی مرضی کے خلاف ہوگا، ایسے موقع پر صحیح طریقہ یہ ہے کہ اعراض کیا جائے، نہ کہ ٹکراؤ شروع کردیا جائے۔
اگر آپ ایسے موقعے پر ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کریں تو وہ ہمیشہ چین ری ایکشن (chain reaction) کا سبب بنے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ ہمیشہ خارجی مسائل میں الجھے رہیں گے، اور کبھی اپنے منصوبے کے مطابق موثر عمل شروع نہ کرسکیں گے۔دوسروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنے آپ کو خود اپنے کام میں استعمال نہیں کیا، بلکہ اس کو دوسروں کی مخالفت میں ضائع کردیا۔
اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں اوائڈنس (avoidance) کا طریقہ۔ اس طرح کے معاملے میں یہی واحد طریقہ قابل عمل ہے، کوئی دوسرا طریقہ اس معاملہ میں ورک (work) کرنے والا نہیں۔ جب آدمی دوسرے کی طرف سے پیش آنے والے ناخوش گوار تجربے پر اعراض کا طریقہ اختیار کرتاہے تو وہ اس کے لیے ایک پرو سیلف (pro-self) طریقہ ہوتا ہے۔ اس طرح وہ خود اپنے وقت اور اپنی انرجی (energy)کو بچاتا ہے، تاکہ اس کو وہ خود اپنے فائدے کے لیے استعمال کرے۔