صبر اور دعوت

صبر داعی کا اخلاق ہے۔ صبر ہی کے ذریعہ وہ حالات پیدا ہوتے ہیں جب کہ کوئی شخص دعوتی مواقع کو استعمال کر سکے ۔ جو آدمی ناخوش گوار باتوں پر صبر کرنے کے لیے تیار نہ ہو، وہ اس دنیا میں کبھی داعی کا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔

 سر جیمزجینز(1877-1946ء) مشہور انگریزسائنسداں ہے۔ اس نے طبیعیات اور فلسفہ (Physics & philosophy) کے نام سے 1941ءمیں ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کے دیباچہ میں اس نے اعتراف کیا کہ کائنات کے سائنسی مطالعہ نے ہم کو جہاں پہنچایا ہے، اس سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت کا دروازہ کھولنا ممکن ہے۔ بشرطیکہ ہم اس کا ہینڈل حاصل کر سکیں:

It almost seems to suggest that the door may be unlocked, if only we could find the handle. (p. 216)

انگریز سائنس داں نے جس وقت یہ سطریں لکھی ہیں،عین اس وقت ساری دنیا کے مسلمان انگریزوں کی سیاسی بالادستی پر بھڑک کر ان کے خلاف خون آشام لڑائی میں مصروف تھے۔ وہ انگریز کو صرف ایک قابل نفرت دشمن کے روپ میں دیکھ رہے تھے ۔ اگر وہ انگریز کی سیاسی بالادستی پر وقتی طور پر صبر کر لیتے تو اچانک انہیں دکھائی دیتا کہ انگریز قوم حقیقت کے دروازے کھولنے کے لیے جس’’ ہینڈل‘‘ کی تلاش کر رہی ہے ،وہ ہینڈل ان کے پاس قرآن کی صورت میںموجود ہے۔

 اس واقفیت کی صورت میں انگریز کے بارے میں ان کی پوری نفسیات بدل جاتی۔ اب وہ انگریز کو اپنا مدعو سمجھتے، نہ کہ اپنا حریف ۔ اس کے بعد وہ انگریز کی ہلاکت چاہنے کے بجائے، اس کی ہدایت چاہنے لگتے۔ وہ انگریز کی اصلاح کے لیے دعا کرتے اور اس کے خیر خواہ بن کر اس سے یہ کہتے کہ حقیقت کی منزل تک پہنچنے کے لیے تم کو جس چیز کی ضرورت ہے ،وہ تمہارے خدا نے پیشگی طور پر قرآن کی صورت میں تمہارے لیے بھیج دیا ہے۔

 صبر دعوت کی لازمی شرط ہے ۔ جہاں صبر نہ ہو، وہاں دعوت بھی یقینی طور پر نہیں ہوگی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom