سماجی ہم آہنگی

(انگریزی سہ ماہی میگزین السلام، نئی دہلی سے موصول ہونے والے سوالنامے کے جواب میں یہ مضمون لکھا گیا تھا۔ الرسالہ، ستمبر2003 میں چوں کہ سوال کے بغیر صرف جوابات شائع ہوئے تھے۔ اس لیے یہاں بھی صرف جوابات ہی نمبر وار نقل کیے جارہے ہیں)۔

-1مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کے سماج میں ہم آہنگی کیسے لائی جائے۔ اس کا ایک فارمولا یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس قسم کے اختلافات کو بلڈوز کر کے پورے سماج کو ایک مذہب اور ایک کلچر کا سماج بنایا جائے۔ مگر یہ کوئی فارمولا نہیں ۔ کیوں کہ ایسا ہونا سرے سے ممکن ہی نہیں۔ فطرت کا نظام جو خالق نے بنایا ہے وہ یکسانیت کے اصول پر نہیں بنایا بلکہ تعدد اور تنوع کے اصول پر بنایا ہے ۔ یہی تعدد اور تنوع مذہبی اور تہذیبی دنیا میں بھی موجود ہے۔

یہ خالق کے تخلیقی نقشہ کا ایک حصہ ہے اور جو چیز خود خالق کے تخلیقی نقشہ کا حصہ ہو، اُس کو مٹانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ۔ ایسی حالت میں انسانی دنیا میں مذہبی یکسانیت یا کلچر ل یکسانیت کی بات کرنا اتنا ہی بے معنٰی ہے جتنا کہ مادّی دنیا کے تنوع کو ختم کر کے یکساں مادّی نظام قائم کرنے کا منصوبہ بنانا۔اس سلسلے میں دوسرا فارمولا یہ پیش کیا جاتا ہے کہ تمام مذاہب یکساں ہیں ۔ اس نظریہ کے حامی، لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مختلف مذاہب میں کوئی اختلاف ہی نہیں۔

اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ فرق اور اختلاف کے ذہن کو ختم کردیں ، اس طرح اپنے آپ اتحاد قائم ہوجائے گا۔ یہ بات بھی سراسر بے معنٰی ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ مختلف مذہبوں اور مختلف تہذیبوں میں فرق اور اختلاف اتنا زیادہ حتمی صورت میں موجود ہے کہ کسی بھی دلیل سے اس کو غیر موجود ثابت کرنا ممکن نہیں ۔ یہ فارمولا یقینی طور پر ایک غیر حقیقی فارمولا ہے ۔ وہ عملی طور پر نہ کبھی ممکن ہوا اور نہ آئندہ وہ کبھی ممکن ہوسکتا ہے۔ مزید یہ کہ فرق کوئی عیب نہیں ، بلکہ وہ ایک خوبی ہے۔ وہ مذہبی فکر میں ارتقاء کا ذریعہ ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں صرف ایک ہی فارمولا ہے جو مفید اور قابل عمل ہے،  اور وہ فارمولا وہ ہے جو رواداری (tolerance)کے اصول پر مبنی ہے۔

 اس اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ—  ایک کی پیروی کرو اور سب کا احترام کرو:

Follow one and respect all.

 -2 ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو غلط فہمیاں موجود ہیں ان کی ذمہ داری ہندو اور مسلمان دونوں طرف کے رہنماؤں کے اوپر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ مختلف اسباب کے تحت دونوں طرف کے رہنماؤں نے اپنے اپنے عوام کو وہ ذہن دیا جس کو شناخت(identity)کہا جاتا ہے۔ دونوں ہی نے اپنے قومی وجود کے لیے شناخت کو اہم ترین مسئلہ قرار دیا۔

 اس کو پختہ کرنے کے لیے ہندو رہنما ؤں نے یہ نظریہ بنایا کہ مسلمان مَلچھ ہیں اور مسلم رہنماؤں نے یہ نظریہ وضع کیا کہ ہندو کافر ہیں۔

میرے نزدیک یہ دونوں نظریہ یکساں طور پر غلط ہے ۔ ہندو کو دل سے یہ ماننا چاہیے کہ مسلمان انھیں کی طرح انسان ہیں ۔ اسی طرح مسلمانوں کو دل سے یہ ماننا چاہیے کہ ہندو انھیں کی طرح انسان ہیں ۔ جب تک سوچ میں یہ تبدیلی نہ آئے ہماری سماجی زندگی میں معتدل تعلقات کا ماحو ل قائم نہیں ہوسکتا۔

اس معاملہ کا ایک اور پہلو ہے ، اور اس کا تعلق زیادہ تر مسلمانوں سے ہے ۔ مسلمان اپنے عقیدہ کی رو سے داعی ہیں اور ہندو اُن کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

داعی مدعو کے اس رشتہ کا تقاضا ہے کہ مسلمان یک طرفہ طور پر ذمہ داری لیں کہ انہیں شرعی حکم کے مطابق ، تالیف قلب کے اصول پر عمل کرنا ہے۔ انہیں یہ کرنا چاہیے کہ وہ ہندوؤں کی شکایتوں کو یک طرفہ طور پر اپنے او پر لے لیں تاکہ دونوں فرقوں کے درمیان وہ معتدل ماحول قائم ہو جو دعوتی عمل کے لیے ضروری ہے۔

 یہاں میں یہ اضافہ کروں گا کہ ہندوؤں کی کئی شکایتیں جن کو مسلمان’’غلط فہمی‘‘ قرار دیتے ہیں اور غلط فہمی دور کرنے کے نام پر ایک غیر مؤثر مہم لمبی مدت سے چلارہے ہیں ۔ اس کو انہیں مکمل طور پر ترک کردینا چاہیے۔ کیوںکہ جو معاملہ ہندوؤں کے نزدیک صحیح فہمی کا ہو اس کا خاتمہ اس طرح نہیں ہوسکتا کہ ہم اس کو غلط فہمی کہہ کر نظر انداز کردیں ۔

مثال کے طور پر مسلم بادشاہوں کی کئی کارروائیوں پر ہندوؤں کو بجا طور پر شکایت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کھلے طور پر ان کارروائیوں کی مذمت کریں ۔وہ کھلے طور پر یہ کہیں کہ ہندستان کی مسلم حکومتیں خاندانی حکومتیں تھیں،نہ کہ اسلامی حکومتیں ۔ اس کے سوا کسی اور طریقہ سے اس معاملہ کا خاتمہ ممکن نہیں ۔

 -3اقلیت واکثریت کے تعلقات کو کس طرح بہتر بنایا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں پہل مسلمانوں کو کرنا چاہیے ۔ مثلاً مسلمانوں کے اندر دوقومی نظریے کے بجائے ایک قومی نظریہ کو فروغ دینا۔ مسلمانوں کے اندر فرقہ وارانہ سوچ کو ختم کرکے قومی سوچ (national thinking) پیدا کرنا ، اسی طرح مسلمانوں کے اندر سے اس ذہن کو مکمل طور پر ختم کرنا کہ وہ ہندوؤں کے ایک طبقہ کو دشمن ہندو اور دوسرے طبقہ کو سیکولر ہندو سمجھتے ہیں ۔

 وہ الیکشن میں دھوم مچاتے ہیں کہ مفروضہ دشمن ہندو ہاریں اور سیکولر ہندو جیتیں ۔ اس قسم کی سیاست دین اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔ مسلمان اس قسم کی تفریقی سیاست کا تحمل نہیں کرسکتے ۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اس غیر دانشمندانہ سیاست کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا جائے۔

اس سلسلہ میں دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان میل ملاپ (interaction)زیادہ سے زیادہ بڑھا یا جائے۔ قدیم زرعی دور میں یہ میل ملاپ فطری طور پر موجود تھا۔ مگر اب صنعتی دور میں یہ خطرناک حد تک کم ہوگیا ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں ۔ وہ ہندو اسکول اور مسلم اسکول کی تفریق کے بغیر ہر تعلیمی ادارہ میں داخلہ لے کر پڑھیں ۔

مسلمانوں میں اگر بھر پورطور پر اس قسم کی تعلیمی سرگرمیاں جاری ہوجائیں تو اس کا دو یقینی فائدہ ان کو حاصل ہوگا ۔ اوّل یہ کہ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے دوران غیر مسلموں سے ان کا میل ملاپ بڑھے گا، اور interaction اپنے آپ میں ہر مسئلہ کا حل ہے ۔

 دوسرے یہ کہ مسلمان جب تعلیم میں آگے بڑھیں گے تو اس کے بعد فطری طور پر وہ دفتروں اور کمپنیوں اور تجارتی اداروں میں بڑی تعداد میں پہنچیں گے۔ اس طرح وہ دوری اپنے آپ ختم ہوجائے گی جو زمانی تبدیلی کے نتیجہ میں پیدا ہوگئی ہے۔

 -4پُر امن بقائے باہم کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ مسلمانوں پر یہ لازم کردیا گیا کہ وہ یک طرفہ قربانی کے ذریعہ پُر امن بقائے باہم کا ماحول سماج میں قائم رکھیں ۔ اسی قربانی کا نام صبر ہے۔

صبر کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی طرف سے اشتعال انگیزی ہو تب بھی مشتعل نہ ہونا۔ دوسرے اگر نادانی کر یں تب بھی اس سے اعراض کرنا ۔ دوسرے اگرستائیں تب بھی اس کو برداشت کرلینا ۔ دوسرے اگر نزاع کھڑی کریں تو پہلے ہی مرحلے میں صلح کر کے اس کا خاتمہ کردینا ۔ دوسرے اگر نقصان پہنچائیں تو دوسروں سے لڑنے کے بجائے خدا سے اس کی تلافی کی امید رکھنا ۔ دوسرے اگر فساد کریں تب بھی ان کے لیے اصلاح کی دعائیں کرنا ۔ دوسرے اگر کاٹنے کی کوشش کریں تب بھی ان سے جڑے رہنا ۔ دوسرے اگر نہ دیں تب بھی ان کو دینے کی کوشش کرنا ۔ دوسرے اگر ظلم کریں تب بھی انہیں معاف کردینا ۔

 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں اس حد تک گئے کہ ہجرت کے بعد مدینہ میں آپ تقریباً سولہ ماہ تک کعبہ کے بجائے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے تا کہ وہاں بسنے والے یہودیوں سے غیر ضروری ٹکراؤ نہ پیش آئے۔

قرآن میں اس معاملہ میں یہ اصول مقرر کیا گیا — تمہارے لیے تمہارادین اور ہمارے لیے ہمارا دین (109:6)۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد پیغمبر اسلام نے جو منشور جاری کیا ، اُس میں آپ نے یہ درج فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے مسلمان کا دین اور یہود کے لیے یہود کا دین:لِلْيَهُودِ ‌دِينُهُمْ، وَلِلْمُسْلِمَيْنِ دِينُهُمْ (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 107)۔

 اس مقصد کے لیے یہ اعلان کیا گیاکہ تمام انسان ایک ہی جوڑے کی اولاد ہیں ۔ تمام انسان آپس میں بھائی اور بہن ہیں ۔ تمام انسان خدا کی عیال ہیں ۔ ایک انسان اور دوسرے انسان میں دنیوی تعلقات کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی مسدّس میں اس طرح نظم کیا ہے:

یہ پہلا سبق تھا کتابِ  ہدیٰ کا     کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom