صبر بے عملی نہیں
قرآن میں صبر کی غیر معمولی عظمت بیان ہوئی ہے۔ مثلاًصبر کو اولو العزم پیغمبروں کا طریقہ بتایا گیا ہے(46:35)۔صبر پر اعلیٰ ترین کامیابیوں کی بشارت ہے (7:137)۔ صبر قیادتِ عالم کا زینہ ہے (32:24)۔ صبر حفاظت کا یقینی ذریعہ ہے (12:90)۔ حتی کہ صبر وہ چیز ہے جو آدمی کو بے حساب اجر کا مستحق بناتا ہے (39:10)۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی معاملہ میں دیکھو کہ تم اس کو بدلنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہو تو صبر کرو یہاں تک کہ اللہ خوداس کو بدل دے: إِذَا رَأَيْتُمْ أَمْرًا لَا تَسْتَطِيعُونَ تَغْيِيرَهُ، فَاصْبِرُوا حَتَّى يَكُونَ اللهُ هُوَ الَّذِي يُغَيِّرُهُ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7685)۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنی زندگی کا خیر صبر ہی کے ذریعہ حاصل کیا ہے:وَجَدْنَا خَيْرَ عَيْشِنَا بِالصَّبْرِ(الزھد لوکیع بن الجراح، جلد1، صفحہ449)۔ ابن حجر العسقلانی نے صبر کی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صبر تمام اچھے اخلاق کا جامع ہے: فالصبرجَامعلمكارم الْأَخْلَاق (فتح الباری، جلد11، صفحہ 305)۔
صبر نہ بزدلی ہے اور نہ وہ بے عملی ہے۔ صبر ایک مثبت قدر ہے۔ صبر بلند ترین ذہنی حالت ہے۔ صبر سب سے بڑا عمل ہے ۔ صبر انسانیت کا تکمیلی درجہ ہے۔
آپ سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے ہیں ، کچھ لوگ آتے ہیں اور آپ کے خلاف اشتعال انگیز نعرہ لگا دیتے ہیں۔ اب آپ کے لیے رد عمل کے دو مختلف طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ نعرہ کو سن کر بھڑک اٹھیں۔ آنے والوں کے ساتھ جھگڑنے لگیں۔ یہ بے صبری کا طریقہ ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اشتعال انگیز نعرہ کو سنیں، مگر آپ اس پرمشتعل نہ ہوں ، آپ کا ذہن بدستور اعتدال کی حالت پر باقی رہے۔ آپ اپنے جذبات کو تھام کر یہ سوچیں کہ ایسے موقع پر آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ یہ دوسرا طریقہ صبر کا طریقہ ہے۔
بے صبری بھی عمل ہے، اور صبر بھی عمل ہے ۔ دونوں میں سے کوئی بھی بے عملی نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ بے صبر آدمی فوری جذبات کے تحت اقدام کر بیٹھتا ہے ، خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ اس کے برعکس، صبر والا آدمی سوچ سمجھ کر اور مشورہ کر کے اپنے اقدام کا فیصلہ کرتا ہے— بے صبری کی روش تباہی کی طرف لے جاتی ہے اور صبر کی روش کامیابی کی طرف ۔