نفرت کلچر

امریکا کے سابق صدر جارج بش اپنے آخری دورِ صدارت میںعراق گئے، وہاں4 دسمبر 2008ءکو بغداد میںایک پریس کانفرنس تھی۔ اِس موقع پر ایک عراقی صحافی منتظر الزیدی نے اپنا جوتا نکال کر جارج بش کی طرف پھینکا۔ اِس واقعے پر سارا مسلم ورلڈ جھوم اٹھا۔ ایک عرب دولت مند نے اِس صحافی کو ایک ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا، وغیرہ۔ اِس واقعے کے بعد مسلم دنیا میں ایک نیا احتجاجی کلچر چل پڑا جس کو جوتا کلچر کہاجاسکتا ہے۔ ایک مسلم اخبار نے جوتا پھینکنے کے اِن مناظر کی تصویریں چھاپی ہیں اور اُس پر یہ عنوان قائم کیا ہے:

Shoes that made history.

موجودہ زمانے کے مسلمان منفی سوچ میں جی رہے ہیں۔ مذکورہ واقعہ اِس منفی سوچ کا ایک انتہائی بدنما مظاہرہ ہے۔ اِس جوتا کلچر کا صرف یہ نتیجہ ہوا کہ اس نے عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی تصویر بگاڑ دی۔ اِس لیے اس کا صحیح عنوان یہ ہونا چاہیے:

Shoes that distorted the image of Islam.

جوتا پھینکنے کا یہ کلچر اپنی حقیقت کے اعتبار سے دوسروں پر جوتا پھینکنا نہیں ہے، بلکہ وہ خود اپنے آپ پر جوتا پھینکنا ہے۔ ایسا کرکے مسلمان دوسروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں، بلکہ وہ خود اپنے آپ کو ایکسپوز (expose) کررہے ہیں۔ یہ واقعہ اور اِس طرح کے دوسرے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے پاس دوسروں کے لیے صرف نفرت کا سرمایہ ہے۔ یہ بلا شبہ وہی نفسیات ہے جس کا مظاہرہ آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس نے کیا تھا۔ جو لوگ انسان کے خلاف اِس قسم کی نفرت آمیز نفسیات میں مبتلا ہوں، انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے اِس عمل سے کس کی پیروی کررہے ہیں۔اِس طرح کے افعال بلاشبہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والے ہیں۔ وہ کسی کو خدا کی رحمت کامستحق بنانے والے نہیں۔ سچا مومن وہ ہے جو انسان سے محبت کرے۔ جو لوگ انسان سے نفرت کریں، وہ سچے مومن نہیں۔ جوتا کلچر انسانی شرافت کے بھی خلاف ہے اور ایمان اور اسلام کے بھی خلاف۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom