مثبت جواب
ہجرتِ رسول کے تیسرے سال مدینہ میں قریش اور اہلِ اسلام کے درمیان ایک جنگ ہوئی جو غزوہ احد کے نام سے مشہور ہے۔ اِس میں بعض اسباب سے اہلِ ایمان کو شکست ہوئی۔ تقریباً 70 مسلمان مارے گئے۔ بہت سے زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم شامل تھے۔ جنگ کے خاتمے پر قریش کے سردار نے فخر کے ساتھ اپنی فتح کا کریڈٹ اپنے بت عزی کو دیتے ہوئے کہا:لَنَا العُزَّى وَلاَ عُزَّى لَكُم (ہمارے پاس عزیٰ ہے، اور تمہارے پاس کوئی عزیٰ نہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر صحابہ نے اِن الفاظ میں اِس کا جواب دیا:اللهُ مَوْلاَنَا، وَلاَ مَوْلَى لَكُمْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر4043)۔یعنی، اللہ ہمارا مولا ہے، اور تمہارا کوئی مولا نہیں۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ و ہ زندگی کا ایک عمومی اصول ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر فریقِ ثانی کوئی اشتعال انگیز بات کہے تو تم اس کے جواب میں خود مشتعل نہ ہو، بلکہ مثبت انداز میں اس کا جواب دو۔ فریقِ ثانی کی طرف سے خواہ کچھ بھی کیا جائے، تمھارا طریقہ مثبت ردِّ عمل کا طریقہ ہونا چاہیے، نہ کہ منفی رد عمل کا طریقہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے صحابہ نے فریقِ ثانی کو جو جواب دیا، اُس میں بیک وقت دو فائدے تھے: ایک، یہ کہ صحابہ نے اپنے آپ کو منفی رد عمل کی نفسیات سے بچالیا، اور منفی رد عمل سے بچانا ہی تزکیہ نفس کااصل ذریعہ ہے۔ منفی رد عمل آدمی کے نفس کو آلودہ کرتا ہے اور مثبت رد عمل آدمی کے نفس کو پاک کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
اِس طرح مثبت جواب دینے کا دوسرا فائدہ یہ تھا کہ قول محض قول نہ رہا، وہ ایک دعوت کا قول بن گیا۔ اِس کے ذریعے صحابہ نے فریقِ ثانی کو یہ پیغام دیا کہ شرک کا عقیدہ ایک بے بنیاد عقیدہ ہے۔ صحیح اور درست عقیدہ یہ ہے کہ آدمی اللہ واحد کو مانے اور اُسی سے ہر قسم کے خیر کی امید رکھے۔ ساری طاقت کا مالک اللہ ہے۔کسی کو جو کچھ ملتاہے، وہ صرف اللہ سے ملتا ہے، نہ کہ کسی اور سے۔