انسان کی رعایت
نفرت کے جواب میں نفرت پیدا ہوتی ہے اور محبت کے جواب میں محبت ۔ اسی لیے اسلام نے یہ طریقہ سکھایا ہے کہ کسی کو غلطی کرتے دیکھو تو اس کو حکمت و محبت کے ساتھ سمجھاؤ جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کو سمجھاتا ہے۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:یَسِّروا ولا تعسِّرُوا، وبشِّروا ولاتُنَفِّرُوا (صحیح البخاری، حدیث نمبر69)۔ یعنی تم لوگوں کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرو،تم لوگوں کے ساتھ سختی کا معاملہ نہ کرو۔ تم لوگوں کو خوش خبری دو، تم لوگوں کو متنفر نہ کرو۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میں فجر کی جماعت میں اس لیے پیچھے رہ جاتا ہوں کہ فلاں صاحب ہماری مسجد میں نماز پڑھاتے ہیں اور وہ اس کو بہت لمبا کر دیتے ہیں۔ آپ یہ سن کر غضبناک ہو گئے ۔ حتی کہ اس سے زیادہ غضبناک میں نے آپ کوکبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر آپ نے تقریرکرتے ہوئے فرمایا : يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَمَنْ أَمَّ النَّاسَ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ خَلْفَهُ الضَّعِيفَ وَالْكَبِيرَ وَذَا الْحَاجَةِ(صحیح البخاري، حدیث نمبر704)۔ یعنی، اےلوگو! تم میں کچھ ایسے ہیں جو لوگوں کو دین سے دورکر دیتے ہیں۔ تم میں سے جو شخص لوگوں کی امامت کرے ، اس کو چاہیے کہ مختصر نماز پڑھائے ۔ کیونکہ اس کے پیچھے کوئی کمزور ہے، کوئی بوڑھا ، کوئی ضرورت مند۔
حضرت جابررضی اللہ عنہ ایک روایت میں بتاتے ہیں کہ معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی مسجد میں نماز پڑھتے تھے ۔ یہاں سے واپس ہو کر جاتے اور اپنے محلہ والوں کی امامت کرتے ۔ ایک دن انھوں نے عشاء کی نماز پڑھائی اور اس میں سورہ البقرہ پڑھی ۔ ایک آدمی لمبی قرأت سے گھبرا کر نماز سے الگ ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت معاذ اس سے کھنچے کھنچے رہنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ نے اس آدمی کو کچھ نہیں کہا۔ البتہ حضرت معاذ کی بابت فرمایا :فَتَّانٌ، فَتَّانٌ، فَتَّانٌ(صحیح البخاری، حدیث نمبر701)۔ یعنی،فتنه انگیزفتنه انگیز ، فتنه انگیز۔
اس سلسلے کا سب سے زیادہ حیرت انگیز و اقعہ وہ ہے جب کہ ایک دیہاتی شخص آیا اور مسجد نبوی میں پیشاب کرنے لگا۔ لوگ اس کی طرف دوڑے تو آپ نے لوگوں کو روکا۔ جب وہ پیشاب سے فارغ ہو چکا تو آپ نے گندگی کی صفائی کرائی اور صحابہ سے فرمایا :فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر6128)۔ یعنی، تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو،سختی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ۔
قدیم زمانہ میں کعبہ کی عمارت ایک بار بارش کی زیادتی سے گرگئی تھی۔ قریش نے دوبارہ بنایا تو سامان کی کمی کی وجہ سے اصل بنائے ابراہیمی پرنہیں بنایا ، بلکہ چھوٹا کر کے بنایا۔ آپ چاہتے تھے کہ اس کو دوبارہ بنا ئے ابراہیم کے مطابق بنوا دیں، مگر اس اندیشہ سے کہ کعبہ کی عمارت کے ساتھ جو تقدس شامل ہے، اس کی وجہ سے لوگ شاید اس کے انہدام کا تحمل نہ کرسکیں ، آپ اس سے بازرہے۔ آپ نے ایک بار حضرت عائشہ سے فرمایا : لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، وَلَجَعَلْتُهَا عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1585؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر1333)۔ یعنی، اگر تمہاری قوم نئی نئی کفر سے نہ نکلی ہوتی تو میں بیت اللہ کو توڑ کر پھر سے ابراہیم کی بنیاد کے مطابق بنا دیتا ۔
اِن احادیثِ رسول میں دراصل انسانی رعایت کی تعلیم دی گئی ہے۔ حدیثوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ انسان کے ساتھ آخری حد تک رعایت کا معاملہ کیا جائے۔قول یا عمل ، کسی میں بھی شدت کا انداز اختیار نہ کیا جائے۔
اِس رعایت کا مطلب لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑنا نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اصلاح کے عمل کے لیے صحیح نقطۂ آغاز (starting point)اختیار کیا جائے۔ اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اعمال کے ظاہری پہلوؤں کے بارے میں رعایت کا معاملہ کیا جائے اور زیادہ زور اور تاکید اعمال کے داخلی پہلوؤں پر دیا جائے۔ کیوںکہ ظواہر کی اصلاح سے داخلی اصلاح نہیںہوتی۔ بلکہ اِس کے برعکس، داخلی اصلاح سے ظواہر کی اصلاح ہوتی ہے۔
رعایت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو دین پر عمل کرنا، زیادہ مشکل نہیںمعلوم ہوتا ۔ وہ متوحش ہوئے بغیر دینی اعمال کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے آدمی کے داخل کی اصلاح ہوتی ہے، پھر دھیرے دھیرے اس کے ظواہر بھی دین کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ رعایت دراصل حکیمانہ طریقِ کار کا دوسرا نام ہے، اور یہ ایک واقعہ ہے کہ حقیقی اصلاح ہمیشہ حکیمانہ طریقِ کار کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ غیر حکیمانہ طریقِ کار کے ذریعے۔مُصلح کا طریقہ ہمیشہ رعایت کا ہونا چاہیے۔ مصلح کا سارا زور اِس پر ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے اندر جذبۂ عمل پیدا کرے۔ عمل کا جذبہ پیدا ہوتے ہی آدمی وہ کام خود کرنے لگتا ہے جس کو شدت پسند مصلح ناکام طورپر انجام دینا چاہتا ہے۔