اپنی تعمیر آپ
قرآن میں ایک نفسیاتی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ (75:14-15)۔ یعنی،انسان (صحیح اور غلط کے معاملے میں) اپنے آپ سے خوب باخبر ہے۔ چاہے وہ کتنے ہی عذرات پیش کرے۔
قرآن کی اس آیت میں ایک نفسیاتی حقیقت، ضمیر ،کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یعنی اس بات کا اندرونی احساس کہ کسی طرزِ عمل یا سوچ میں کیا غلط ہے اور کیا صحیح ۔ یہ نفسیاتی حقیقت ہر انسان کے لیے ایک حجت داخلی کی حیثیت رکھتی ہے۔انسان بظاہر دوسرے حیوانات کی طرح ایک حیوان ہے۔ مگرانسان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندر ایک ایسی صفت پائی جاتی ہے، جو کسی اور حیوان کے اندر نہیں ہے۔ یہ ضمیر (conscience) کی صفت ہے۔
خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان کو اِس بات کی کامل آزادی دی گئی ہے کہ وہ جس طرح چاہے، سوچے او ر جس طرح چاہے، بولے اور لکھے۔مگر انسان کے اندر پیدائشی طور پر یہ شعور موجود ہے کہ وہ برائی اور بھلائی میں تمیز کرے۔ انسان کا ضمیر صحیح عمل کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے۔یہ فرق بتاتا ہے کہ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ایک سیلف میڈمین (self-made man) بنے، اور اس کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنی نگرانی خود کرے۔ وہ اپنے اندر سیلف کرکشن (self-correction) کا پراسس جاری کرے۔وہ تعمیر خویش کا نمونہ بن جائے۔
انسان کو اس کے خالق نے مکسچر آف اپوزٹس (mixture of opposites) بنایا ہے۔ یہ انسان کے اوپر اس کے خالق کا احسانِ عظیم ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ انسان سیلف ڈسکوری (self-discovery) کی سطح پر کھڑا ہو۔ وہ اپنی غلطی کو خود دریافت کرکے اس کی اصلاح کرتا رہے۔ خدا کی کتاب اور کائنات کی نشانیاں بلاشبہ انسان کے لیے مددگار ہیں۔ اسی کے ساتھ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کوخود اپنے عمل سے جنت کے لیے ایک مستحق امیدوار (deserving candidate)بنائے۔
انسان کے لیے اللہ نے جنت کو مقدر کیا ہے۔ جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat) ہے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کی تمام خواہشیں پوری ہوں گی، جہاں انسان کو مکمل معنوں میں فل فلمنٹ (fulfilment)حاصل ہوگا۔ اس قسم کی جنت بلاشبہ انسان کے لیے خالق کا سب سے بڑا عطیہ ہے۔
انسا ن کےاوپر خالق کا مزید احسان یہ ہے کہ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان کو جنت یہ کہہ کر دی جائے کہ تم کو جنت بطور استحقاق دی جارہی ہے۔ اگر چہ دینے والا پھر بھی خالق ہوگا۔ خالق کے بغیر انسان اس دنیا میں کوئی بھی چیز حاصل نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ خالق کی خصوصی عنایت ہے کہ وہ انسان کو جنت یہ کہہ کر دے کہ تم نے اپنے عمل سے اپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کیا ہے، اس لیے تم کو جنت دی جارہی ہے۔ اب تم اس میں ابدی طور پر خوف اور حزن سے محفوظ ہوکر قیام کرو۔
اس سلسلے میں ایک حدیث کا مطالعہ بہت اہم ہے۔ وہ حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللهُ بِكُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ، فَيَسْتَغْفِرُونَ اللهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2749)۔ یعنی، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تم کو ہٹا دے گا اور ایسی قوم کو لائے گا جو گناہ کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ انہیں معاف فرما دے گا۔
اس حدیث میں گناہ اور مغفرت کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں زیادہ اہم بات کیا ہے۔ وہ گناہ اور مغفرت کے درمیان جاری ہونے والا نفسیاتی عمل (psychological process) ہے۔ جب انسان کو ئی گناہ کرتا ہے تو وہ اس کے ایگو کا فعل ہوتا ہے۔ مگر عین اسی وقت انسان کی دوسری صفت، ضمیر جاگ اٹھتی ہے۔ اس کے اندر شدید ندامت کا عمل جاری ہوجاتا ہے۔ اس طرح انسان کے اندر ایک داخلی اسٹرگل (struggle)جاری ہوجاتا ہے۔ یعنی ایگو اور ضمیر یا سیلف اور اینٹی سیلف کے درمیان داخلی اسٹرگل۔ اس داخلی اسٹرگل کے ذریعہ انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج کرتی ہے۔ یہ شخصیت احساسِ خطا کے بغیر بن نہیں سکتی۔