صبر و توکل
وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (16:41-42)۔ یعنی، اور جن لوگوں نے اللہ کے لیے اپنا وطن چھوڑا،بعد اس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا، ہم ان کو دنیامیں ضرور اچھا ٹھکانہ دیں گے اور آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے، کاش وہ جانتے۔ وہ ایسے ہیں جوصبر کرتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صبر کے ساتھ تو کل کا نہایت گہرا تعلق ہے۔صبر ایک عظیم دینی عمل ہے۔ مگر اس دنیا میں صبر کی روش پر وہی لوگ قائم رہ سکتے ہیں جو اللہ رب العالمین کی ذات پر بے پناہ بھروسہ رکھتے ہوں ۔
اس آیت میں جن اہل ایمان کا ذکر ہے، یہ وہ لوگ تھے جن پر ان کے مخالفوں نے ظلم کیا ۔ مگر وہ منفی ردعمل میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے اندر یہ جذ بہ نہیں بھڑکا کہ وہ ظالموں کو سبق سکھائیں، یا ان سے ان کے ظلم کا انتقام لیں۔ اس کے بجائے انھوں نے یہ کیا کہ خاموشی کے ساتھ اس مقام سےہٹ گئے جہاں ان کے اوپر ظلم ہو رہا تھا۔ وہ انسانوں سے الجھنے کے بجائے، خدا کی طرف متوجہ ہو گئے۔
ان کے اس عملِ ہجرت کو قرآن میں صبر کہا گیا۔ اور پھرفرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا پر توکل کرنے والے ہیں۔ صبر کے ساتھ تو کل کا ذکر نہایت اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی آدمی صبر کے طریقہ پر قائم نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کے اندر تو کل علی اللہ کی صفت نہ ہو۔
نا موافق صورتحال پیش آنے کے بعد جو آدمی بے برداشت ہو کر لڑنے لگے ، وہ اپنی اس روش سے ثابت کرتا ہے کہ وہ صرف اپنی ذات کو جانتا تھا۔ وہ خدا کی برتر طاقتوں سے واقف نہ تھا۔ اگر وہ خدا کی خدائی کو اور اس کے وعدوں کو جانتا تو وہ صبر کرتا۔ کیوں کہ اس کو یقین ہوتا کہ صبر کر کے میں زیادہ بڑی طاقت کو اپنے مخالف کے مقابلہ میں کھڑا کر رہا ہوں۔ یہ طاقت خود مالک کائنات کی ہے ،جس کی پکڑ سے بچنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔