حمد اور کَبَد کے درمیان
قرآن میں ایک طرف حمد خداوندی کی تعلیم دی گئی ہے۔ دوسری طرف یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق دنیا انسان کے لیے کبدکی دنیا ہے (90:4) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسائل کے درمیان رہتے ہوئے خدا کاشکر کرنے والے بنو۔ناپسندیدہ حالات میں بھی تمہارا دل شکر الٰہی کے مثبت جذبات سے معمور رہے۔ حمد اللہ کی نسبت سے مطلوب ہے، اور صبر انسان کی نسبت سے۔
قرآن کے اس بیان کے مطابق، دنیا انسان کے لیے دارالکبد ہے۔ ایسی حالت میں، وہ کس طرح سچا شکر گزار بن کر رہ سکتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ حمد اللہ کی نسبت سے ہے، اور کبد انسان کی نسبت سے۔ انسان سے اصل چیز جو مطلوب ہے، وہ حمد اور شکر ہے۔ دارالکبد میں انسان شکر گزار کیسے بنے۔ اس کا جواب صبر ہے۔ مومن کو انسان کی زیادتیوں پر صبر کرنا ہے تاکہ اس کے اندر شکر کی اسپرٹ باقی رہے، وہ ہرحال میں اپنے رب کے لیے شکر کا رسپانس دیتا رہے۔ دوسروں کے مقابلے میں صبر کرنا کوئی منفی بات نہیں۔ اس میں خود انسان کی اپنی بھلائی چھپی ہوئی ہے۔
جو شخص انسان کی زیادتیوں پر صبر کرے گا اس کے اندر ذہنی انضباط (intellectual discipline) کی صلاحیت پرورش پائے گی۔ اس کے اندر ذہنی بیداری آئے گی۔ وہ ایک سنجیدہ انسان بن جائے گا۔ اس کی فطرت میں چھپے ہوئے امکانات (potential) اَن فولڈ (unfold) ہونے لگیں گے۔ اس کے اندر گہری سوچ (deep thinking) پیدا ہوگی۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجائے گا کہ اعلیٰ معرفت کی سطح پر جینے لگے۔ وہ ایک دانش مندانسان (man of wisdom) بن جائے گا۔
انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کے کبد (مسائل) پر ری ایکٹ (react) کرنے کے بجائے ان کے بارے میں آرٹ آف منیجمنٹ سیکھے۔ یہی وہ واحد قیمت ہے جس کو ادا کرکے انسان اس قابل ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا میں اپنے خالق کی مرضی کے مطابق رہے، اور آخرت میں جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے۔