مثبت شخصیت، منفی شخصیت
اسلامی فقہ کا یہ مسئلہ ہے کہ اگر ایک ٹب پاکیزہ پانی ہو، اُس میں گندگی کا ایک قطرہ ڈال دیا جائے تو ٹب کا پورا پانی گندا ہو جائے گا۔ اِس کے برعکس، اگر ایک ٹب گندا پانی ہو اور اس میں ایک قطرہ پاک پانی ڈال دیا جائے تو اُس سے وہ پانی پاک نہیں ہوجائے گا، بلکہ وہ بدستور گندا رہے گا۔ یہ ایک خارجی نوعیت کی مادی مثال ہے۔ یہی معاملہ انسان کی داخلی شخصیت کا ہے۔
ایک شخص کے ذہن میں اگر 99 مثبت آئٹم ہوں اور صرف ایک منفی آئٹم اس کے اندر داخل ہوجائے تو یہی منفی آئٹم غالب آجائے گااور آدمی کی پوری شخصیت منفی شخصیت بن جائے گی۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ مثبت سوچ کسی درجے میں بھی منفی سوچ کو قبول نہیں کرتی ۔ آدمی کی شخصیت یا تو صد فی صد مثبت شخصیت ہوگی، یا وہ سرے سے مثبت شخصیت ہی نہ ہوگی۔
یہ ایک اہم نفسیاتی اصول (psychological principle)ہے جو آدمی اپنے اندر مثبت شخصیت (positive personality) کی تعمیر کرنا چاہتا ہے، اُس کو لازمی طورپر یہ کرنا ہے کہ وہ سختی کے ساتھ اپنا محاسب بن جائے۔ وہ ہر وقت اِس بات کی نگرانی کرتا رہے کہ اس کے ذہن میں ادنی درجے میں بھی کوئی منفی سوچ داخل نہ ہو۔ شکایت یا نفرت کا کوئی ایک آئٹم بھی اگر اس کے اندر موجود ہے تو وہ ڈھونڈ کر اس کو باہر نکال دے۔ اِس معاملے میں وہ خود اپنا نگراں بن جائے۔
تعمیر شخصیت کا یہ ایک مستقل عمل ہے جو ہر آدمی کو ہر صبح وشام انجام دینا ہے۔ کوئی بھی دوسرا عمل اِس معاملے میں غفلت کی تلافی نہیں بن سکتا۔
یاد رکھنا چاہیے کہ مثبت شخصیت ہی ربانی شخصیت ہے اور ربانی شخصیت ہی وہ شخصیت ہے جس کو آخرت کے دورِ حیات میں جنت میں داخلہ ملے گا۔ منفی شخصیت رکھنے والے لوگ بلاشبہ جنت میں داخلے کے لیے غیر مستحق قرار پائیں گے۔