اذیت پر صبر
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں:
عَنِ ابْنَ عُمَرعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ، وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الَّذِي لَا يُخَالِطُهُمْ، وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ قَالَ:حَجَّاجٌ:خَيْرٌ مِنَ الَّذِي لَا يُخَالِطُهُمْ(حدیث نمبر 5022)۔ یعنی عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ مومن جو لوگوں سے مخالطت کرتا ہے، اور ان کی اذیت پر صبر کرتا ہے، وہ اجر میں اس سے زیادہ ہے جو مخالطت نہیں کرتا، اور لوگوں کی اذیت پر صبر نہیں کرتا۔ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں، وہ بہتر ہے ان سے جو لوگوں سےمخالطت نہ کرے۔
مخالطت کا مطلب ملنا جلنا (social intercourse) ہے۔ جو شخص اپنے آپ میں جینے والا ہو، اس کو لوگوں کی طرف سے کوئی اذیت نہیں پیش آئے گی۔ لیکن جو شخص لوگوں کے درمیان رہے، لوگوں کے ساتھ اس کا انٹر ایکشن ہوتا ہو، لوگوں کے ساتھ اس کے معاملات پیش آئیں، ایسے آدمی کو فطری طور پر دوسروں کی طرف سے چھوٹی یا بڑی اذیت پیش آئے گی۔
تنہائی کی زندگی گزارنے والے کے مقابلے میں مخالطت کی زندگی گزارنے والا افضل کیوں ہوتا ہے۔اس کا سبب فطرت کا ایک اصول ہے۔ فطری نظام کے تحت ہر آدمی بے پناہ صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ صلاحیتیں اس کے اندر بالقوۃ (potential) کے طور پر ہوتی ہیں۔ اس بالقوۃ کو بالفعل (actual) بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کو شاک کا تجربہ پیش آئے۔ فطرت کا نظام شاکنگ ٹریٹمنٹ (shocking treatment) کے اصول پر قائم ہے۔ جو آدمی شاک کو سہے، اس کے فطری امکانات اَن فولڈ (unfold) ہوتے رہتے ہیں، اس کا ذہنی ارتقا (intellectual development) ہوتا رہے گا۔ اس کے برعکس، جو شخص صدمہ (shock) کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو اس کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری نہیں ہوگا۔ وہ جیسا پیدا ہوا تھا، ویسے ہی مرجائے گا۔