چُپ کی طاقت
ایک پرانا مثل ہے— ایک چُپ ہزار بلا ٹالتی ہے۔ یہ مثل تقریباً ہر زبان میں مختلف الفاظ میں موجود ہے۔ اِس لحاظ سے تمام لوگ اِس مثل کو جانتے ہیں، مگر ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اِس مثل کو عملاً اپنی زندگی میں استعمال کریں۔ جاننے میںاور عمل میں اِس فرق کا سبب کیا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب کوئی عورت یا مرد اِس مثل کو سنتا ہے یا پڑھتا ہے، اُس وقت وہ معتدل ذہن (normal mind) کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن جب اُس کے استعمال کا وقت آتا ہے تو اُس وقت وہ غیرمعتدل ذہن (abnormal mind) کی حالت میں ہوجاتا ہے۔ اِس کے عملی استعمال کا وقت وہ ہوتا ہے، جب کہ کوئی آدمی بھڑکا کر اُس کو غصہ دلادے، وہ اس کے خلاف نازیبا کلمات بول دے۔ اُس وقت یہ ہوتا ہے کہ سننے والا بھی بھڑک اٹھتا ہے۔ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہتا ہے۔ یہی سبب ہے جس کی بنا پر لوگ جانتے ہوئے بھی چپ کی پالیسی کو اختیار نہیں کرپاتے۔ چپ رہنے سے بات وہیں کی وہیں ختم ہوسکتی تھی، لیکن بولنے کا طریقہ اختیار کرنے کی وجہ سے بات بڑھتی ہے اور بریک ڈاؤن (break down) کی نوبت آجاتی ہے، ایک وقتی چیز مستقل خرابی کا سبب بن جاتی ہے۔
اشتعال کے موقع پر چپ رہنا سب سے زیادہ کامیاب پالیسی ہے۔ اشتعال کے موقع پر نہ بولنا فتنے کے دروازے کو بند کردیتاہے، اور اشتعال کے موقع پر بولنا فتنے کا دروازہ کھول دیتا ہے، ایسا دروازہ جو پھر کبھی بند نہیںہوتا۔ اشتعال کے موقع پر بولنے سے بات بڑھتی ہے، اور اشتعال کے موقع پر نہ بولنے سے بات وہیں کی وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ اِسی حقیقت کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:الْفِتْنَةُنَائِمَةٌ لَعَنَ اللهُ مَنْ أَيْقَظَهَا (کنز العمال، حدیث نمبر 30891)۔یعنی، فتنہ سویا ہوا ہے،اُس شخص پر لعنت ہے جو اِس سوئے ہوئے فتنے کو جگائے۔ ہر آدمی اپنے اندر منفی نفسیات لیے ہوئے ہے۔ اگر آپ چپ رہیں تو یہ منفی نفسیات دبی رہے گی۔ لیکن اگر آپ بول دیں تو یہ منفی نفسیات جاگ اٹھے گی اور پھر اس کے وہ برے نتائج نکلیں گے جس کا پیشگی اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔